سنن دارمي
من كتاب النكاح -- نکاح کے مسائل
48. باب مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ:
رضاعت سے جو حرام ہو جاتے ہیں ان کا بیان
حدیث نمبر: 2284
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، فَسَمِعَتْ صَوْتَ إِنْسَانٍ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتَ إِنْسَانٍ فِي بَيْتِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نَعَمْ، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں کہ ایک آدمی کی آواز سنی اور کہا: یا رسول! میں نے آپ کے گھر میں کسی آدمی کے داخل ہونے کی آواز سنی ہے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے وہ فلاں آدمی ہوگا۔، وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! میرے رضائی چچا اگر زندہ ہوتے تو وہ میرے گھر میں آ سکتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، رضاعت سے بھی ویسی ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسی ولادت سے ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2293]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2646]، [مسلم 1444]، [نسائي 3313]، [أبويعلی 4374]

وضاحت: (تشریح حدیث 2283)
یعنی جس طرح ولادت کی وجہ سے بھائی بہن ہوتے ہیں، دودھ پینے کی وجہ سے بھی بھائی بہن بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے محرم ہوتے ہیں جن کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا۔
رضاعت کے باب میں یہ پہلی حدیث ہے اور اس کا مطلب ظاہر ہے۔
رضاعت سے مراد عورت کے پستان سے بچے کا مخصوص مدت میں دودھ چوس کر پینا ہے، اور دودھ پینے اور پلانے والی کی حرمت کا یہی سبب اور ثبوت ہے، اس سے دودھ پینے والا بچہ پلانے والی کا بچہ قرار پاتا ہے، اور وہ بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے، اب اس عورت سے ہمیشہ کے لئے اس کا نکاح حرام ہے، پھر یہ حرمت دودھ پینے والے کی اولاد میں اور دودھ پینے اور پلانے والی کی اولاد، اور اس کے شوہر کی اولاد یا اس کے آقا کی اولاد جس سے اس نے وطی کی ہوگی پرمشتمل ہوگی۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
اس حدیث سے ایک سوکن کا دوسری سوکن کے گھر جانا، اخلاق و محبت سے رہنا ثابت ہوا، اور رضاعی چچا کی حرمت ثابت ہوئی، اور عام قاعدہ معلوم ہوا کہ جو رشتے نسلاً حرام ہیں رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
اور امّت کا اس پر اجماع ہے۔