سنن دارمي
من كتاب النكاح -- نکاح کے مسائل
56. باب في تَزْوِيجِ الصِّغَارِ إِذَا زَوَّجَهُنَّ آبَاؤُهُنَّ:
چھوٹی بچیوں کا اگر ان کے باپ دادا نکاح کر دیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 2298
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَوُعِكْتُ، فَتَمزَّقَ رَأْسِي، فَأَوْفَى جُمَيْمَةً، فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي، فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ، فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّى أَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ، وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ، فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي، ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحى، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہوا تو میری عمر چھ سال تھی، پھر ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے یہاں ٹھہرے، یہاں آ کر مجھے بخار آ گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے، پھر مونڈھوں تک خوب بال ہو گئے، پھر ایک دن (میری والدہ) ام رومان آئیں اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی، انہوں نے مجھے پکارا تو میں حاضر ہوئی اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے، آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازے کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جا رہا تھا، تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے کچھ تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا، پھر مجھے گھر کے اندر لے گئیں، وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ اللہ خیر و برکت کرے اور تمہارا اچھا نصیب ہو، میری ماں نے مجھے ان کے حوالے کر دیا اور انہوں نے میری آرائش کی، اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ان عورتوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا اور اس وقت میری عمر نو سال تھی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2307]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3894]، [مسلم 2438]، [أبويعلی 4498]، [ابن حبان 7097]

وضاحت: (تشریح حدیث 2297)
حجاز چونکہ گرم ملک ہے اس لئے یہاں قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں بہت کم عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں، اس لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے وقت صرف نو سال کی عمر تعجب خیز نہیں، بعض لوگ اس روایت میں غلطی کا اظہار کرتے ہیں کہ 19 کو کہا گیا ہے۔
یہ خام خیالی اور احادیث بخاری و مسلم میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے جو بڑی خطرناک بات ہے، اس طرح حدیث کے تمام مجموعے خام خیالی اور شکوک و شبہات کی زد میں آ جائیں گے۔
«(أعاذنا اللّٰه منه)» ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھوٹی لڑکی کا نکاح درست ہے بغیر اجازت کے، بہت سے علماء کا اس پر اجماع ہے کہ باپ نے اگر چھٹپن میں نکاح کر دیا ہے تو بعد بلوغ کے لڑکی کو فسخ کا اختیار نہیں، اور بعض علماء نے کہا کہ بلوغ کے بعد اس بچی کو فسخ کا اختیار ہے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دلہن کا بناؤ سنگھار کرنا مستحب ہے، نیز عورتوں کا جمع ہونا اور دعا و مبارک باد دینا بھی صحیح ہے، اور لوگوں کے جمع ہونے سے اعلانِ نکاح بھی ہو جاتا ہے، دلہن کی تسلی و اطمینان اور آدابِ ملاقات سے آشنائی ہوتی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دولہا دلہن کی ملاقات اور صحبت دن میں بھی درست ہے۔
واللہ اعلم۔