سنن دارمي
من كتاب الطلاق -- طلاق کے مسائل
11. باب في عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَالْمُطَلَّقَةِ:
مطلقہ اور «متوفى عنها زوجها» کی حالت حمل میں عدت کا بیان
حدیث نمبر: 2319
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ: أَنَّ سُبَيْعَةَ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ فَتَشَوَّفَتْ، فَعَابَ أَبُو السَّنَابِلِ، فَسَأَلَتْ أَوْ ذَكَرَتْ أَمْرَهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ".
اسود سے مروی ہے کہ سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ دن بعد وضع حمل کیا (بچہ پیدا ہوا) اور اس نے زیب وزینت اختیار کی، ابوالسنابل نے اس پر انہیں عیب لگایا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔ (یعنی عدت ختم ہو جانے کی تصدیق کی اور آرائش و نکاح کی اجازت دیدی۔)

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2328]»
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 2316 سے 2319)
یہ تمام روایات اس باب کی پہلی حدیث کا اختصار ہیں، مطلب سب کا وہی ہے کہ ایسی عورت جو حاملہ ہو اور اس کا شوہر انتقال کر جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضعِ حمل اس کی عدت ہوگی چاہے کم ہو یا زیادہ۔
سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم ابعد الاجلین کے قائل تھے، لیکن ان کا اس سے رجوع کرنا ثابت ہے، لہٰذا «﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾» پر عمل ہوگا اور یہی صحیح مسلک ہے۔
واللہ اعلم۔