سنن دارمي
من كتاب الاحدود -- حدود کے مسائل
9. باب في حَدِّ الْخَمْرِ:
شراب پینے پر حد کا بیان
حدیث نمبر: 2349
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الدَّانَاجُ، حَدَّثَنَا حُضَيْنُ بْنُ الْمُنْذِرِ الرَّقَاشِيُّ، قَالَ: شَهِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَأُتِيَ بِالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: "جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ".
حضین بن منذر قاشی نے بیان کیا کہ میں سیدنا عثان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا کہ ولید بن عقبہ (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیافی بھائی) کو لایا گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس ہی مارے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسّی کوڑے لگائے، اور سب سنت ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2358]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1707]، [أبوداؤد 4480]، [ابن ماجه 2571]، [أبويعلی 504، 3015]، [الطيالسي 1537]

وضاحت: (تشریح احادیث 2347 سے 2349)
شراب پینے والے اور نشہ کرنے والے کی سزا قرآن پاک میں مذکور نہیں ہے۔
یہ معلوم ہے کہ شراب پینا حرام ہے، یہ اُم الخبائث ہے، اور نشہ کی حالت میں انسان سے قبیح اور ناقابلِ معافی جرم سرزد ہو جاتے ہیں اس لئے اسلام نے اس دروازے ہی کو بند کر دیا۔
اب اگر کوئی شخص پی ہی لے تو اس کو سزا ضرور ملنی چاہیے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی چھڑی وغیرہ سے شرابی کو سزا دی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا یعنی چالیس کوڑے لگائے، جب لوگ بکثرت پینے لگے تو امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے مشورے سے شرابی کی سزا اسّی کوڑے مقرر کر دی۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا «كُلٌّ سُنَّةٌ» اس بات کی تائید کرتا ہے کہ چالیس اور اسّی سب ٹھیک اور سنّت ہے، نیز حاکمِ وقت کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی صواب دید کے مطابق جتنی چاہے شرابی کو سزا دے، چالیس کوڑے یا اسّی کوڑے۔