سنن دارمي
من كتاب الاحدود -- حدود کے مسائل
15. باب في الْحُكْمِ بَيْنَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِذَا تَحَاكَمُوا إِلَى حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ:
اگر اہل کتاب مسلم حکام سے فیصلہ کرائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 2358
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا، فَقَالَ: "كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ؟". قَالُوا: لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبْتُمْ، فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمُ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ فَجَاءُوا بِالتَّوْرَاةِ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يَدْرُسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ قَالُوا: هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ،"فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ تُوضَعُ الْجَنَائِزُ عِنْدَ الْمَسْجِدِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يُخْبِئُ عَلَيْهَا: يَقِيهَا الْحِجَارَةَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے ایک آدمی اور ایک عورت کو لے کر آئے جنہوں نے زنا کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی زنا کرتا تو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہمیں تورات میں اس کا کوئی حکم نہیں ملتا، سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جھوٹے ہو، توریت میں آیت الرجم موجود ہے، اگر تم سچے ہو تو تورات لیکر آؤ اور پڑھو، چنانچہ وہ تورات لے کر آئے تو اس کے پڑھنے والے نے اپنا ہاتھ رجم والی آیت پر رکھ لیا تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ (ہاتھ اٹھایا) تو انہوں نے دیکھا کہ یہ تو رجم کرنے کی آیت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور ان کو مسجد کے قریب جہاں جنازے رکھے جاتے تھے وہاں رجم کر دیا گیا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس عورت کے ساتھی کو دیکھا جو عورت کو پتھروں سے بچانے کی کوشش میں اس پر جھکا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وزهير هو: ابن معاوية والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2367]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1329]، [مسلم 1699]، [أبوداؤد 4446]، [ترمذي 1436]، [ابن حبان 4434]

وضاحت: (تشریح حدیث 2357)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچھلی کتابوں میں بھی شریعتِ اسلامیہ جیسے مسائل موجود تھے لیکن اہلِ کتاب نے انہیں پوشیدہ رکھا یا بدل ڈالا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا غالباً یہی تھا کہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لئے اسلام میں رجم کرنے کی سزا ہے اسی طرح تورات میں بھی ہے، معلوم ہوا اگر اہلِ کتاب بھی فیصلہ کرائیں تو اسلام کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، اس حدیث سے یہود کی بد دیانتی اور تحریف کا ثبوت ملا، سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بھی یہودی تھے لیکن اسلام لے آئے اور وہ توریت کے عالم تھے اس لئے انہوں نے قلعی کھول کر رکھ دی (رضی اللہ عنہ وارضاه)۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر پر بھی زنا کی حد جاری کرنا واجب ہے، اور کافروں پر فروعِ دین کا بھی حکم واجب ہے، نیز کفار کا مقدمہ جب مسلمان کے پاس آئے تو شرع کے مطابق حکم دینا چاہیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے تورات کا حکم حجت قائم کرنے کے لئے دریافت کیا تھا ان کی تقلید کے لئے نہیں۔
(انتہیٰ مختصراً)۔