سنن دارمي
من كتاب الاحدود -- حدود کے مسائل
16. باب في حَدِّ الْمُحْصَنِينَ بِالزِّنَا:
شادی شدہ زنا کرنے والوں کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 2359
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: "إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، وَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا، وَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُ: لَا نَجِدُ حَدَّ آيَةِ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا أُحْصِنَّ، إِذَا قَامَتْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوِ الِاعْتِرَافُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب (قرآن) اتاری جس میں رجم کی آیت موجود تھی جس کو ہم نے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا تھا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زانی کو) رجم بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی (زانی کو) رجم کیا، میں ڈرتا ہوں کہ لوگوں پر زمانہ بیتنے کے بعد کوئی کہنے لگ جائے کہ ہم کو تو قرآن پاک میں رجم کی آیت ملتی ہی نہیں ہے۔ حالانکہ کتاب الله میں رجم شادی شدہ زنا کرنے والے مرد و عورت کے لئے حق و ثابت ہے، جبکہ زنا پر دلیل مل جائے، یا حمل ظاہر ہو جائے یا اعتراف سے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2368]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6829]، [مسلم 1691]، [أبوداؤد 4418]، [ترمذي 1432]، [ابن ماجه 2553]، [أبويعلی 146، 151]، [الحميدي 25، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 2358)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زنا کا ثبوت تین طرح سے ہوتا ہے: چار گواہ، مجرم کا اقرار، یا عورت کا حاملہ ہونا۔
اور اگر یہ صورت پیش آ جائے کہ ایک عورت نہ شادی شدہ اور نہ لونڈی مگر حاملہ ہو تو امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کے نزدیک اس پر زنا کی حد لگائی جائے گی۔
مگر امام شافعی و ابوحنیفہ رحمہما اللہ کے نزدیک محض حمل کی وجہ سے حد جاری نہیں کی جائے گی جب تک کہ زنا کے گواہ نہ مل جائیں یا زنا کا اقرار نہ کرے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں نسخ پایا جاتا ہے اور آیت الرجم قرآن میں موجود تھی لیکن اب اس کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سورۂ احزاب سورۂ بقرہ کے برابر تھی، جتنی اب موجود ہے اس کے علاوہ باقی منسوخ ہوگئی اور اس میں ہم پڑھتے رہتے تھے کہ (شادی شدہ مرد یا عورت جب زنا کریں تو ان کو سنگسار کر دو) بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہ گیا۔
امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اندیشہ صحیح ثابت ہوا، ابھی تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا کہ معتزلہ نے رجم کا انکار کر دیا کہ یہ کتاب میں موجود نہیں ہے، ان کے علاوہ امّت کے تمام علماء نے رجم کو ثابت و واجب العمل گردانا ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ گمراہ قرار پائے گا۔