سنن دارمي
من كتاب الاحدود -- حدود کے مسائل
17. باب الْحَامِلِ إِذَا اعْتَرَفَتْ بِالزِّنَا:
حاملہ عورت زنا کا اعتراف کر لے تو کیا کیا جائے؟
حدیث نمبر: 2361
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي غَامِدٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا:"ارْجِعِي". فَلَمَّا كَانَ مِنْ الْغَدِ، أَتَتْهُ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بِالزِّنَاء، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَلَعَلَّكَ أَنْ تَرْدُدَنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَحُبْلَى، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"ارْجِعِي، حَتَّى تَلِدِي". فَلَمَّا وَلَدَتْ، جَاءَتْ بِالصَّبِيِّ تَحْمِلُهُ فِي خِرْقَةٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذَا قَدْ وَلَدْتُ، قَالَ:"فَاذْهَبِي فَأَرْضِعِيهِ، ثُمَّ افْطُمِيهِ". فَلَمَّا فَطَمَتْهُ، جَاءَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ فَطَمْتُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِيِّ فَدُفِعَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا حُفْرَةٌ، فَجُعِلَتْ فِيهَا إِلَى صَدْرِهَا، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهَا، فَأَقْبَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِحَجَرٍ فَرَمَى رَأْسَهَا، فَتَلَطَّخَ الدَّمُ عَلَى وَجْنَةِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ:"مَهْ يَا خَالِدُ، لَا تَسُبَّهَا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً، لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ، لَغُفِرَ لَهُ". فَأَمَرَ بِهَا فَصُلِّيَ عَلَيْهَا، وَدُفِنَتْ.
عبدالله بن بریدہ نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ قبیلہ بنوغامد کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھ سے زنا سرزد ہو گیا ہے اور چاہتی ہوں کہ آپ مجھے (اس گناہ سے) پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس جاؤ، دوسرے دن وہ پھر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعتراف کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ شاید مجھے ویسے ہی وا پس کر رہے ہیں جیسے ماعز کو آپ نے لوٹایا تھا۔ اللہ کی قسم میں حاملہ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی واپس جاؤ جب ولادت ہو جائے تو آنا، چنانچہ جب ولادت ہوگئی تو وہ ایک کپڑے میں بچے کو لپیٹ کر لائی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لیجئے ولادت بھی ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے دودھ پلاؤ، جب دودھ چھوڑے تو پھر آنا، چنانچہ جب اس کا دودھ انہوں نے چھڑایا تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھما کر لائی اور عرض کیا: دیکھئے اے اللہ کے رسول! اب میں نے دودھ بھی چھڑا دیا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے کو ایک صحابی کے سپرد کر دیا اور اس عورت کے لئے گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر کے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ سینے تک کے گڑھے میں کھڑی کر دی گئی۔ سیدنا خالد بن الوليد رضی اللہ عنہ سامنے آئے اور پتھر اٹھا کر سر پر پھینکا جس سے خون کے چھینٹے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کے چہرے پر آ پڑے تو انہوں نے اس عورت کو برے لفظوں سے نوازا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی یہ بات سنی تو فرمایا: ٹھہرو اے خالد! اس کو برا نہ کہو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے اتنی زبردست توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی (جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور مسکینوں کو ستاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے (حالانکہ دوسری حدیث میں یہ ایسا شخص جنت میں نہ جائے گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اس پر نماز پڑھی گئی اور دفن کر دی گئی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2369]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1695]، [أبوداؤد 4441، وغيرهما]

وضاحت: (تشریح حدیث 2360)
اس حدیث سے ان پاک طینت غامدی خاتون کی فضیلت ثابت ہوئی کہ بتقاضۂ بشریت گناه سرزد ہوا، توبہ کی لیکن دل مطمئن نہ ہوا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں کہ مجھے پاک کر دیجئے، ایک بار نہیں بار بار آئیں اور آخر میں چھوٹے سے بچے کو روٹی کا ٹکڑا بھی ہاتھ میں پکڑا دیا کہ رحمت للعالمین دیکھ لیں اور ان کو رجم کرنے کا حکم فرما دیں۔
سبحان اللہ! ایک خاتون ہو کر کیا ہمت تھی، کیا قوی ایمان اور جوش و جذبہ تھا، پھر جب سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے کچھ برے الفاظ کہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور فضیلت بیان کی کہ اتنی سچی توبہ انہوں نے کی ہے کہ بڑے سے بڑا ظالم بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کر دیا جائے۔
ایک روایت ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں میں ان کی توبہ تقسیم کر دی جائے تو ان کے لئے کافی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا، چوری وغیرہ میں اگر توبہ کر لی ہے تب بھی حد جاری کی جائے گی۔
نیز اس حدیث میں ہے کہ ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور پھر وہ دفن کردی گئیں، اس سے بعض علماء نے کہا: زانی و زانیہ پر نماز پڑھی جائے گی۔
بعض نے کہا: زانی پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ عوام و خواص سب کو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے۔