سنن دارمي
من النذور و الايمان -- نذر اور قسم کے مسائل
9. باب مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْراً مِنْهَا:
کوئی آدمی قسم کھائے اور پھر وہی کام اسے بہتر لگے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 2384
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:....... فَذَكَرَ نَحْوَ الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الحديث متفق عليه وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2392]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 2382 سے 2384)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی عہدے کے لئے کوشش کرنا یا اسے طلب کرنا درست نہیں، اور اگر بنا مانگے اور کنونس کے بغیر کوئی عہدہ مل جائے تو پھر الله تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھانے کے بعد کوئی چیز اچھی معلوم ہو تو قسم توڑ دینی چاہئے اور اس کا کفارہ ادا کر دینا چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں قول و فعل دونوں مروی ہیں۔
پہلی حدیث میں کفارہ بعد میں ادا کرنے کا حکم ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ پہلے کفارہ ادا کرے پھر وہ بھلائی کا کام کرے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ نہیں، لیکن یہ حدیث ان کے مخالف ہے، گرچہ بخاری میں ایسے ہی ہے کہ کام کرے پھر کفارہ دے، لیکن سند سے امام دارمی رحمہ اللہ کی روایت کی تائید ہوتی ہے، اس لئے پہلے یا بعد میں کبھی بھی کفارہ ادا کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم۔
قسم کا کفارہ وہی ہے جو قرآن پاک میں مذکور ہے: «﴿فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ﴾ [المائده: 89] » دس مسکین کو کھانا کھلانا، یا لباس دینا، یا غلام آزاد کرنا، اگر یہ نہ ہو سکے تو تین دن کے روزے رکھنا۔