سنن دارمي
من كتاب الديات -- دیت کے مسائل
1. باب الدِّيَةِ في قَتْلِ الْعَمْدِ:
قتل عمد کی دیت کا بیان
حدیث نمبر: 2389
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: "أَنَّ مَنْ اعْتَبَطَ مُؤْمِنًا قَتْلًا عَنْ بَيِّنَةٍ فَإِنَّهُ قَوَدُ يَديِهِ إِلَّا أَنْ يَرْضَى أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: اعْتَبَطَ: قَتَلَ مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ.
ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کے لئے (پروانہ) لکھا اور اس مکتوب میں یہ تھا: جو شخص کسی مسلمان کو بے وجہ مار ڈالے اور گواہوں سے اس پر خون ثابت ہو تو اس پر قصاص لازم ہے (یعنی اس سے بدلہ لیا جائے گا) الا یہ کہ مقتول کے وارثین راضی ہوں۔ (یعنی معاف کر دیں)۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اعتبط» کا معنی ہے بلاکسی عذر کے قتل کرنا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2397]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [نسائي 4868، 4869]، [مسند أبي يعلی 5954]

وضاحت: (تشریح احادیث 2387 سے 2389)
دیت اس مال کو کہتے ہیں جو مقتول کی جان کے عوض دیا جاتا ہے، یا جو مال اعضائے بدن کے زخموں یا ٹوٹنے کے عوض دیا جاتا ہے۔
اسلام نے قتل و غارت گری کو حرام قرار دیا ہے اور قتل کو کبائر الذنوب میں شمار کیا ہے، اسی طرح کسی کو مارنا، ایذا پہنچانا بھی حرام قرار دیا ہے، اور ایک آدمی کے قتل کو پوری نوع انسانی کے قتل کے مرادف بتایا ہے۔
اب اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کے وارثین کو اختیار ہے کہ وہ قصاص طلب کریں یا معاف کردیں، جیسا کہ سورۂ بقرہ 178 میں ہے، یا پھر دیت لے لیں جس کا بیان آگے آ رہا ہے (2402) میں، مذکورہ بالا دونوں حدیث ضعیف ہیں لیکن مفہوم صحیح ہے۔
قتل کئی طرح کا ہوتا ہے، علماء کرام نے اس کو تین انواع میں تقسیم کیا ہے: قتلِ عمد، قتلِ خطا، اور شبہ العمد، اور ہر قسم کی الگ سزا ہے جس کا بیان آگے احادیث میں آ رہا ہے۔