سنن دارمي
من كتاب الديات -- دیت کے مسائل
2. باب في الْقَسَامَةِ:
قسامہ کا بیان
حدیث نمبر: 2390
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ أَبي حَثْمَةَ أَحَدُ بَنِي حَارِثَةَ إِلَى خَيْبَرَ مَعَ نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ يُرِيدُونَ الْمِيرَةَ بِخَيْبَرَ، قَالَ: فَعُدِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقُتِلَ: فَتُلَّتْ عُنُقُهُ حَتَّى نُخَعَ ثُمَّ طُرِحَ فِي مَنْهَلٍ مِنْ مَنَاهِلِ خَيْبَرَ، فَاسْتُصْرِخَ عَلَيْهِ أَصْحَابُهُ، فَاسْتَخْرَجُوهُ فَغَيَّبُوهُ، ثُمَّ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَتَقَدَّمَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ ذَا قِدَمٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنَا عَمِّهِ مَعَهُ: حُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَمُحَيِّصَةُ، فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَحْدَثَهُمْ سِنًّا، وَهُوَ صَاحِبُ الدَّمِ وَذَا قَدَمٍ فِي الْقَوْمِ فَلَمَّا تَكَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"الْكُبْرَ الْكُبْرَ". قَالَ: فَاسْتَأْخَرَ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ، ثُمَّ هُوَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تُسَمُّونَ قَاتِلَكُمْ، ثُمَّ تَحْلِفُونَ عَلَيْهِ خَمْسِينَ يَمِينًا، ثُمَّ نُسَلِّمُهُ إِلَيْكُمْ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنَّا لِنَحْلِفَ عَلَى مَا لَا نَعْلَمُ، مَا نَدْرِي مَنْ قَتَلَهُ، إِلَّا أَنَّ اليَهُودَ عَدُوُّنَا، وَبَيْنَ أَظْهُرِهِمْ قُتِلَ. قَالَ:"فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَبُرَاءُ مِنْ دَمِ صَاحِبِكُمْ، ثُمَّ يَبْرَءُونَ مِنْهُ". قَالُوا: مَا كُنَّا لِنَقْبَلَ أَيْمَانَ يَهُودَ، مَا فِيهِمْ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يَحْلِفُوا عَلَى إِثْمٍ. قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ بِمِائَةِ نَاقَةٍ.
سہل بن ابی حثمہ نے کہا: بنوحارثہ کے ایک فرد عبدالله بن سہل بن ابی حثمہ اپنی قوم کے کچھ افراد کے ساتھ روزی روٹی کی تلاش میں خیبر کی طرف گئے تو عبداللہ پر زیادتی ہوئی، وہ مارے گئے، ان کی گردن مروڑ دی گئی اور مہرے (منکے) ٹوٹ گئے (یعنی بری طرح ان کی گردن کچل دی گئی) اور ان کی لاش کو خیبر کے چشموں میں سے ایک چشمے کے اندر ڈال دیا گیا، ان کے ساتھیوں نے چیخ و پکار کی اور ان کی لاش کو نکال کر چھپا دیا، پھر وہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے، اور مقتول کے بھائی سیدنا عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ آگے آئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے ساتھی اور ان کے چچیرے بھائی حویصہ اور محیصہ ابنا مسعود ان کے ساتھ تھے، سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بات کرنی چاہی، جو ان سے چھوٹے تھے اور مقتول کے وارث بھی تھے اور قوم کے پرانے مسلمان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے بڑوں کو بات کرنے دو، چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئے اور حويصہ و محیصہ نے پھر بات کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم قاتل کا نام بتاؤ، پھر پچاس بار قسم کھاؤ (کہ وہی قاتل ہے) ہم اس قاتل کو تمہارے حوالے کر دیں گے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جس کا ہمیں علم ہی نہیں اس پر قسم کیسے کھائیں؟ ہمیں نہیں معلوم انہیں کس نے قتل کیا؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہودی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں کے درمیان ان کا قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: پھر ان (یہود) کو قسم کھانی ہوگی کہ وہ تمہارے مقتول کے قتل سے بری ہیں (یعنی انہوں نے قتل نہیں کیا) پھر وہ اس سے بری کر دیئے جائیں گے، انہوں نے کہا: ہم یہود کی قسموں کا اعتبار نہیں کریں گے کیونکہ وہ تو جھوٹی قسم اکثر کھا جاتے ہیں، راوی نے کہا: چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کے وارثین کو اپنی طرف سے سو اونٹنیاں دیت کی ادا کر دیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2398]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2702]، [مسلم 1669]، [أبوداؤد 4521]، [ترمذي 1422]، [نسائي 4724]، [ابن ماجه 2677]، [ابن حبان 6009]، [الحميدي 407]

وضاحت: (تشریح حدیث 2389)
قسامہ قسم اٹھانے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یوں ہوتی ہے کہ کوئی مقتول آدمی کسی بستی یا شہر میں پایا جائے اور اس کے قاتل کا علم نہ ہو سکے، اور اس کے قتل پر کوئی گواہ بھی نہ ہو، لیکن مقتول کا ولی اس کے قتل کا الزام کسی آدمی یا جماعت پر لگائے، اور اس دعوے پر کوئی مضبوط دلیل نہ ہو، لیکن قرائن سے قاتل قریب کا ہو، جیسے ان کے محلے میں پایا گیا ہو، یا قاتل و مقتول کے مابین دشمنی ہو تو مدعی کو سچ مان لیا جائیگا، اور مقتول کے اولیاء کو پچاس قسمیں کھانے کا حکم دیا جائے گا، اگر انہوں نے قسمیں کھا لیں تو قاتل کے وارثین دیت کے مستحق قرار دیئے جائیں گے، اور اگر مقتول کے اولیاء قسم کھانے سے انکاری ہوں، تو پھر جس پر انہوں نے دعویٔ قتل کیا ہے ان کو پچاس قسم اٹھانے کا حکم دیا جائے گا کہ وہ اس بات کی قسم کھائیں کہ انہوں نے قتل نہیں کیا، اور ان کو علم نہیں ہے کہ اس کا قاتل کون ہے؟ پس اگر وہ قسم کھا لیں تو وہ بری قرار پائیں گے، ان پر کوئی چیز واجب نہ ہوگی، اور اگر انہوں نے قسم کھانے سے گریز کیا تو ان پر دیت ادا کرنا واجب ہو جائے گا۔
مذکورہ بالا حدیث میں بالکل ٹھیک یہی صورت بیان کی گئی ہے، نیز کیونکہ مدعی علیہ کی قسم کا اعتبار کرنے سے مقتول کے اولیاء نے انکار کر دیا تھا، اور اہلِ خیبر صلح کئے ہوئے تھے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کی دیت سو اونٹنی اپنی طرف سے ادا کیں۔
اس حدیث میں بڑوں کا ادب اور انہیں آگے آ کر بات کرنے کی ترغیب بھی ہے۔
نیز ایک آدمی کی دیت سو اونٹ ہے، اور روزی کی تلاش میں باہر جانے کا بھی ثبوت ہے۔