سنن دارمي
من كتاب الديات -- دیت کے مسائل
4. باب كَيْفَ الْعَمَلُ في الْقَوَدِ:
قاتل بدلے میں کس طرح قتل کیا جائے گا
حدیث نمبر: 2392
أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ جَارِيَةً رُضَّ رَأْسُهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا أَفُلَانٌ، أَفُلَانٌ؟ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، فَبُعِثَ إِلَيْهِ فَجِيءَ بِهِ، فَاعْتَرَفَ، "فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک لڑکی کا دو پتھروں کے درمیان سر کچل دیا گیا، اس سے کہا گیا: کیا فلاں یا فلاں نے تمہارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے؟ یہاں تک کہ یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے تائید کی، چنانچہ اس کو بلا بھیجا گیا اور اس نے اعتراف کر لیا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2400]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2413]، [مسلم 1672]، [أبوداؤد 4527]، [ترمذي 1394]، [نسائي 4756]، [ابن ماجه 2665]، [أبويعلی 2818]، [ابن حبان 5991]

وضاحت: (تشریح حدیث 2391)
یہ مقتولہ لڑکی انصاریہ تھی اور سونے کے کڑے پہنے ہوئی تھی، اور اس یہودی نے لالچ میں آ کر اس معصوم کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اتار کر لے گیا، چنانچہ اس حال میں وہ لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی کہ ابھی اس میں کچھ رمق باقی تھی اور اس نے یہودی کی نشاندہی کر دی، لہٰذا اس کے اعتراف کے بعد اس قاتل و ظالم کا بھی سر اسی طرح دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں، اولاً یہ کہ عورت کے بدلے مرد کو قتل کر دیا جائے گا، دوسرے یہ کہ جس طرح اس نے قتل کیا ہے اسی طرح اس کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔
امام مالک، شافعی، و احمد رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: قتل میں مماثلت کی ضرورت نہیں بلکہ تلوار یا گولی سے مار دینا ہوگا، اس حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ محض سیاسی اور تعزیری حد تھی۔