سنن دارمي
من كتاب الديات -- دیت کے مسائل
5. باب لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ:
کافر کے بدلے مسلمان قاتل قتل نہیں کیا جائے گا
حدیث نمبر: 2393
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَلْ عَلِمْتَ شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى؟. قَالَ:"لَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ الرَّجُلَ فِي الْقُرْآنِ، وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ". قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟. قَالَ:"الْعَقْلُ، وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِمُشْرِكٍ".
ابوجحیفہ نے کہا: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! کتاب اللہ کے سوا وحی (الٰہی) میں سے اور کچھ آپ کے پاس ہے؟ (یعنی جو قرآن پاک میں موجود نہیں)، انہوں نے فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانہ چیر کر ا گایا، اور جان کو پیدا کیا، مجھے قرآن کے علاوہ کچھ نہیں معلوم سوائے اس فہم (و بصیرت) کے جو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی جس کو چاہتا ہے عنایت فرماتا ہے، اور جو ورق میں لکھا ہوا ہے، میں نے عرض کیا: اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ فرمایا: دیت اور قیدی چھوڑنے کے احکام اور یہ مسئلہ کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2401]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 111]، [ترمذي 1412]، [نسائي 4758]، [ابن ماجه 2658]، [أبويعلی 338]، [الحميدي 40]

وضاحت: (تشریح حدیث 2392)
ابوجحیفہ کے سوال اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے جواب سے شیعہ پر رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن پورا نہیں ہے، اس میں سے چند سورتیں غائب ہیں، اور پورا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس، پھر ایک امام کے پاس آتا رہا، یہاں تک کہ امام مہدی کے پاس آیا وہ غائب ہیں، جب ظاہر ہوں گے تو دنیا میں پورا قرآن پھیلے گا، معاذ اللہ یہ سب اکاذیب اور خرافات ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس نے دانے کو چیرا اور جان کو پیدا کیا، اور ہمارے پاس وہی علم ہے جو اوروں کے پاس ہے (نہ کوئی وصیت ہمارے پاس ہے)......۔
اس حدیث کے پیشِ نظر علمائے کرام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مسلمان کافر حربی کے بدلے نہ مارا جائے اور کافر ذمی کے بدلے بھی نہ مارا جائے۔
جمہور علماء اور اہلِ حدیث کا یہی مسلک ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسلمان ذمی کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا۔
یہ حدیث ان کے خلاف ہے، اور ان کے دلیل میں قوت نہیں ہے، امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: اگر مسلمان ذمی کافر کو مار ڈالے تو وہ اس کے بدلے قتل کیا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: مسلمان کسی حال میں قتل نہ کیا جائے یہی صحیح ہے، سیدنا علی و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی احادیث اس قول کی مؤید ہیں۔
(وحیدی)۔