صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
58. بَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجدوں میں مردوں کا سونا۔
حدیث نمبر: 441
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ قَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: انْظُرْ أَيْنَ هُوَ، فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ وَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6204  
´ایک کنیت ہوتے ہوئے دوسری ابوتراب کنیت رکھنا جائز ہے`
«. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" إِنْ كَانَتْ أَحَبَّ أَسْمَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَيْهِ لَأَبُو تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ أَنْ يُدْعَى بِهَا، وَمَا سَمَّاهُ أَبُو تُرَابٍ إِلَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَاضَبَ يَوْمًا فَاطِمَةَ، فَخَرَجَ فَاضْطَجَعَ إِلَى الْجِدَارِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْبَعُهُ، فَقَالَ: هُوَ ذَا مُضْطَجِعٌ فِي الْجِدَارِ، فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَامْتَلَأَ ظَهْرُهُ تُرَابًا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ وَيَقُولُ: اجْلِسْ يَا أَبَا تُرَابٍ . . .»
. . . سہل بن سعد نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو ان کی کنیت ابوتراب سب سے زیادہ پیاری تھی اور اس کنیت سے انہیں پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ یہ کنیت ابوتراب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ ایک دن فاطمہ رضی اللہ عنہا سے خفا ہو کر وہ باہر چلے آئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے آئے اور فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ کی پیٹھ مٹی سے بھر چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیٹھ سے مٹی جھاڑتے ہوئے (پیار سے) فرمانے لگے ابوتراب اٹھ جاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6204]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6204 کا باب: «بَابُ التَّكَنِّي بِأَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَتْ لَهُ كُنْيَةٌ أُخْرَى:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں دو کنیتوں کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ حدیث میں صرف ایک کنیت ابوتراب کا ذکر ہے، تو پھر باب سے حدیث کی مناسبت کس طرح سے ہوگی؟ دراصل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دو کنیتیں تھیں، ایک کنیت وہ جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب اور تحت الباب میں ذکر فرمائی، دوسری کنیت وہ جو مشہور تھی «أبوالحسن» ۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فان قلت ما وجه دلالته على الكنيتين و هو جزء الآخر من الترجمة، قلت: أبوالحسن هو الكنية المشهورة لعلي رضي الله عنه فلما كنى بأبي تراب صار ذا كنيتين.» (1)
علامہ کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پہلی کنیت ابوالحسن تھی، جس کنیت سے وہ معروف تھے، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوتراب رکھی تو آپ کی دو کنیتیں ہو گئیں یہی مقصود ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے۔
مولانا عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث سهل، ومطابقته للترجمة ظاهرة، لأن عليا كانت له كنية أخرى، وهى أبوالحسن، وكنّاه النبى صلى الله عليه وسلم أبا تراب.» (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل باب میں سہل رحمہ اللہ سے حدیث نقل فرمائی جس کی مناسبت ظاہر ہے، کیوں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کنیت پہلی ابولحسن کے نام سے معروف تھی اور دوسری کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ابوتراب۔
لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 194   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 441  
441. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لائے تو حضرت علی ؓ کو گھر میں نہ پا کر ان سے پوچھا: تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟ انھوں نے عرض کیا: ہمارے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا، وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں، انھوں نے میرے ہاں قیلولہ نہیں کیا (یہاں نہیں سوئے۔) رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ دیکھ کر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں حضرت علی ؓ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹنے کی وجہ سے وہاں مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:441]
حدیث حاشیہ:
تراب عربی میں مٹی کو کہتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ازراہِ محبت لفظ ابوتراب سے بلایا بعد میں یہی حضرت علی ؓ کی کنیت ہوگئی اورآپ اپنے لیے اسے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔
حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے چچازاد بھائی تھے، مگرعرب کے محاورہ میں باپ کے عزیزوں کو بھی چچا کا بیٹا کہتے ہیں۔
آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے دل میں حضرت علی ؓ کی محبت پیدا کرنے کے خیال سے اس طرز سے گفتگو فرمائی۔
میاں بیوی میں گاہے گاہے باہمی ناراضگی ہونا بھی ایک فطری چیز ہے۔
مگر ایسی خفگی کو دل میں جگہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔
اس سے خانگی زندگی تلخ ہوسکتی ہے۔
اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز نکلا۔
یہی حضرت امام بخاریؒ کا مقصدہے جس کے تحت آپ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔
جو لوگ عام طور پر مسجدوں میں مردوں کے سونے کو ناجائز کہتے ہیں، ان کا قول صحیح نہیں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 441   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:441  
441. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لائے تو حضرت علی ؓ کو گھر میں نہ پا کر ان سے پوچھا: تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟ انھوں نے عرض کیا: ہمارے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تھا، وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں، انھوں نے میرے ہاں قیلولہ نہیں کیا (یہاں نہیں سوئے۔) رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ دیکھ کر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ (یہ سن کر) آپ مسجد میں تشریف لے گئے جہاں حضرت علی ؓ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹنے کی وجہ سے وہاں مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:441]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونے کا جواز صرف ان لوگوں کے لیے ہی نہیں جو بے گھر اور مسافر ہوں بلکہ جن کے پاس معقول جائے سکونت ہو وہ بھی اگرکسی مصلحت کے پیش نظر مسجد میں سونا چاہیں تواس میں تنگی نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی ؓ کا گھر بار موجود تھا، اس کے باوجود وہ مسجد میں آکر سوگئے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس موقع پر مسجد میں سونے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ایک مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی دلجوئی فرمائی۔
ممکن ہے امام بخاری ؒ حدیث علی اس لیے لائے ہوں کہ گھر بار والے حضرات کو مستقل طور پر مسجد میں شب باشی نہیں کرنی چاہیے، البتہ کسی ضرورت کی وجہ سے عارضی طور پر دوپہر کے وقت آرام کرنے میں چنداں حرج نہیں۔

چونکہ زمین پر لیٹنے کی وجہ سے حضرت علی ؓ کے بدن پر مٹی کچھ زیادہ ہی لگ گئی تھی، رسول اللہ ﷺ نے خود اپنےدست مبارک سے اس مٹی کو صاف کیا، اس مناسبت سے آپ نے حضرت علی ؓ کو ابوتراب کے لقب سے یاد کیا۔
عربی زبان میں تراب مٹی کوکہتے ہیں۔
حضرت علی ؓ کو اگر کوئی اس کنیت سے یاد کرتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6204)
رسول اللہ ﷺ اس انداز گفتگو سے اس ناگواری کو دورکرنا چاہتے تھے جو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کے درمیان درآئی تھی، نیز اس واقعے سے رشتہ مصاہرت میں مدارات کی اہمیت کا بھی پتہ چلتاہے۔

حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے چچازاد نہ تھے، کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوطالب کے بیٹے تھے۔
اس میں عرب کے محاورے کےمطابق باپ کے عزیز رشتے دارکو چچازاد کہاگیاہے۔
رسول اللہ ﷺ اس قریبی رشتے داری کے حوالے سے حضرت فاطمہ ؓ کو اپنے خاوند سے حسن سلوک اور نرم رویہ اختیار کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ تیرے چچازاد، یعنی شوہر نامدار کہاں ہیں؟عرض کیا:
وہ مسجد میں ہیں۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3703)
پھر آپ نے راوی حدیث حضرت سہل بن سعد ؓ کو بھیجا کہ وہ مسجد میں ان کا پتہ کرکے آئیں کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہیں؟کیونکہ اس وقت حضرت سہل کے علاوہ اور کوئی دوسراشخص آپ کے ہمراہ نہیں تھا۔
وہ گئے تو دیکھا کہ حضرت علی ؓ دوپہر کے وقت مسجد کی دیوار کے سائے تلے لیٹے ہوئے ہیں۔
(فتح الباري: 693/1)
اس حدیث سے اسلامی معاشرے کے خدوخال کا پتہ چلتا ہے کہ اس پاکیزہ ماحول میں اگرخاوند کی بیوی سے کسی بات پر چپقلش ہوجاتی تو بیوی کو مارپیٹ کر گھرسے نکالنے کے بجائے خاوند خود ہیقہردرویش برجان درویش وہاں سے کنارہ کش ہوجاتا۔
وہ کسی ہوٹل، پارک، ویڈیو سنٹر، انٹرنیٹ کلب یادیگر تفریحی مقامات کا رخ نہ کرتا بلکہ مسجد ہی کو اپنی احتجاج گاہ قراردے لیتا۔
اللہ تعالیٰ ان سےراضی ہواور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔
آمین!
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 441