سنن دارمي
من كتاب الجهاد -- کتاب جہاد کے بارے میں
2. باب فَضْلِ الْجِهَادِ:
جہاد کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2428
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَتَصْدِيقٌ بكَلِمَاتِهِ، أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ يَرُدَّهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے کلام کو سچ جان کر صرف جہاد کی نیت سے اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلے تو اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کو شہید کر کے جنت میں داخل کرے گا، یا پھر ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ اس مجاہد کو اس کے گھر لوٹا لائے گا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2436]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3123]، [مسلم 1876]، [ابن حبان 4610]، [الحميدي 1118، 1119]

وضاحت: (تشریح حدیث 2427)
جہاد لغت میں محنت و مشقت اور کوشش کو کہتے ہیں، اور شرعاً اسلام کی حفاظت و حمایت اور اعلائے كلمۃ الله کی غرض سے قتال اور باغیوں سے لڑنے میں اپنی پوری جد و جہد جہاد کہلاتا ہے، اس کے شروط و ضوابط ہیں جن کے بغیر جہاد صحیح نہیں، سب سے اہم شرط یہ ہے: وہ جہاد اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو، ایسا جہاد اللہ تعالیٰ کو پسند اور ایسے مجاہد کے لئے دنیا میں انعام و اکرام، اور آخرت میں بے حد اجر و ثواب کی بشارت ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج اللہ کی رضا کے لئے ہو، مجاہد فی سبیل اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے دو انعام مقرر کئے: اگر اسے شہادت نصیب ہو تو وہ سیدھا جنّت میں جائے گا، حوروں کی گود میں پہنچے گا، اور حساب و کتاب سے مستثنیٰ ہوگا، اور اگر سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور مالِ غنیمت کے ساتھ واپس ہوگا۔