سنن دارمي
من كتاب السير -- سیر کے مسائل
6. باب: «لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ»:
دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2477
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ، فَاثْبُتُوا، وَأَكْثِرُوا ذِكْرَ اللَّهِ، فَإِنْ أَجْلَبُوا وَضَجُّوا، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّمْتِ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دشمن سے لڑائی کرنے کی آرزو نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کرو، اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرو، اور جب وہ چیخ و پکار کریں تو تم خاموش رہو۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد الرحمن بن زياد هو: ابن أنعم الأفريقي، [مكتبه الشامله نمبر: 2484]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسرے طرق سے اس کے متعدد جملے صحیح ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 2818، 2833، 2966]، [مسلم 1748]، [أبوداؤد 2631]، [ابن منصور 242/2]، [البيهقي 153/9، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 2476)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاں تک ہو سکے لڑائی سے بچنا، اس کو ٹالنا اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے، کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے۔
جب صلح صفائی کی کوئی صورت نہ بن سکے، اور دشمن مقابلہ ہی پرآمادہ ہو تو بزدلی نہیں دکھانی چاہیے بلکہ جم کر اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہے، اور صبر و استقامت اور پوری قوت سے دشمن کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
بزدلی اور فرار مومن کی شان سے بعید تر ہے، اور ہر حال میں الله کو یاد کرنا چاہیے، فتح و نصرت اسی کے ہاتھ میں ہے، اور موت سے ڈرنا نہیں چاہیے، اگر شہادت لکھی ہے تو یہ بڑی سعادت ہے، اور کوئی طاقت اس سے بچا نہیں سکتی اور موت مقدر نہیں تو یقیناً سلامتی کے ساتھ واپسی ہوگی۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کامیابی و ناکامی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس کی مشیت کے سامنے سارے آلاتِ حرب، توپ و تفنگ، بم اور دھماکے رکھے رہ جاتے ہیں۔
«(وَهُوَ غَالِبٌ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ)» ۔