سنن دارمي
من كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے ابواب
1. باب فِي: «الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ»:
حلال اور حرام کے واضح ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 2567
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُتَشَابِهَاتٌ، لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ، اسْتَبْرَأَ لِعِرْضِهِ وَدِينِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ، وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى فَيُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں (اس کی حلت و حرمت سے سب لوگ واقف نہیں) ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے (حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی مشتبہ چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو کوئی مشتبہ کام میں پڑا وہ حرام میں پڑ جائے گا، اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے تو قریب ہے کہ کبھی وہ اس چراگاہ کے اندر گھس جائے (اور شاہی مجرم قرار پائے) سنو، ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں (پس ان سے بچو) سن لو، بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوگا سارا بدن درست ہوگا، اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا (آدمی) کا دل ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2573]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 52]، [مسلم 1599]، [أبوداؤد 3329]، [ترمذي 1205]، [نسائي 4465]، [ابن ماجه 3984]، [ابن حبان 721]، [الحميدي 943]

وضاحت: (تشریح حدیث 2566)
اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے، اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے، دین سے متعلق ارشاداتِ نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں، شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیار کرو، فضولیات سے بچو، اور نیّت کے مطابق عمل کرو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے، اور معلوم ہوا کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے، اسی کے ہاتھ میں عمل ارادے کی لگام ہے۔
جب تک قلب صحیح، جسم صحیح، دل بیمار ہوا تو سارا جسم ہی بیمار ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلال اور حرام تو واضح ہیں لیکن کچھ امور کچھ لوگوں پر مشتبہ ہو سکتے ہیں، اس لئے ان مشتبہ امور سے بچنا لازم ہے، اللہ نہ کرے کہ کوئی چوک کر ان مشتبہ امور کے ذریعہ حرام میں پڑ جائے۔
اس کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی بہترین مثال چراگاہ سے دی۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: «﴿الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ .....﴾ [آل عمران: 7] » جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کی تلاش میں رہتے ہیں .....۔
اس حدیث میں خرید و فروخت اور تجارت کرنے والوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں، اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں، یہی اس حدیث کا محل الشاہد ہے۔
والله اعلم۔