سنن دارمي
من كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے ابواب
24. باب في الْعَرَايَا:
بیع عرایا کا بیان
حدیث نمبر: 2594
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِالتَّمْرِ وَالرُّطَبِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ فِي غَيْرِ ذَلِكَ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا کی تر یا خشک کھجور کے بدلے اجازت دی تھی اور اس کے سوا کسی (صورت) کی اجازت نہیں دی تھی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2600]»
اس روایت کی سند قوی ہے اور حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2184]، [مسلم 1539]، [ترمذي 1300]، [نسائي 4546]، [ابن ماجه 2268]، [أبويعلی 5798]، [ابن حبان 4981]

وضاحت: (تشریح حدیث 2593)
عرايا عریہ کی جمع ہے، اور یہ ایسی بیع ہے کہ کوئی آدمی اپنے باغ میں سے دو تین درخت کسی مسکین کو دیوے، پھر اس کا باغ میں بار بار آنا مناسب خیال نہ کرے، ان درختوں کا میوه خشک میوے کے بدلے اس سے خرید لے، اور ضروری ہے کہ یہ میوه پانچ وسق سے کم ہو۔
(وحیدی)۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یاد رہے کہ اہلِ عرب قحط کے دنوں میں اور خشک سالی کے ایام میں اپنے باغات میں سے فقیروں اور مسکینوں کے درختوں کو چھوڑ کر ان کے پھل صدقات کی صورت میں دیا کرتے تھے کہ فلاں درخت کی کھجوریں تمہاری ہیں، اس طرح عطیہ میں دی گئی کھجور کو عریہ کہتے ہیں، اور ان کھجور کے درختوں کا پھل کھانے کے لئے مساکین ان باغات میں جایا کرتے تھے جس سے مالکِ باغ کو تکلیف ہوئی تھی، اور یہ بھی ہوتا کہ اپنی محتاجی و غریبی کی وجہ سے مساکین ان کے پکنے کا انتظار نہ کر سکتے تھے تو اپنے حصے کے پھل وہ فروخت کر دیتے تھے، اور پھل ابھی درخت ہی پر ہوتے اور اس کے بدلے خشک کھجور (یعنی تر کے بدلے خشک) لے لیتے اور مالکِ باغات کو روز مرہ کی آمد و رفت کی تکلیف سے نجات مل جاتی۔
یہ بعینہ بیع مزابنہ ہی کی صورت ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کو حرام قرار دیا تو ضرورت اور حاجت رفع کرنے کی غرض سے بیع عرایا کی اجازت مرحمت فرما دی اس شرط پر کہ کھجور کے اندر درختوں پر پھل کا تخمینہ لگا کر ان کے بدلے ناپ کر اتنی کھجور دے دیں جو پانچ وسق سے کم ہو۔
اس کی اور بھی صورتیں ہیں جو شروح کی کتابوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
بہرحال اس حدیث سے اسلام کی غربا پروری، مساکین کی دل بستگی اور سب کے ساتھ ہمدردی کی بہترین مثال سامنے آئی، احناف نے بیع عریہ کو مزابنہ پر قیاس کر کے اس کی حلت و جواز سے انکار کیا ہے جو صحیح احادیث کا انکار ہے۔
کتبِ احادیث میں اکثر جگہ جہاں مزابنہ کی حرمت کا ذکر ہے اس سے ملے ہوئے ابواب میں عرایا کی حلت کا بھی ذکر موجود ہے، اس لئے عریہ ایک خاص مقدار میں غریبوں، مسکینوں کے لئے جائز ہے۔
واللہ اعلم۔