سنن دارمي
من كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے ابواب
33. باب لاَ يَبِيعُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ:
کوئی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے
حدیث نمبر: 2603
أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَبِيعُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تَلَقَّوُا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ، وَلَا تَنَاجَشُوا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی کسی کی خرید و فروخت میں خل اندازی نہ کرے، اور نہ قافلوں سے جا کر ملے یہاں تک کہ وہ منڈی میں پہنچ جائیں، اور خریدنے کا ارادہ نہیں تو بھاؤ نہ بڑھائے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع، [مكتبه الشامله نمبر: 2609]»
اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2139]، [مسلم 1412]، [أبوداؤد 3436]، [ترمذي 1292]، [نسائي 3238]، [ابن ماجه 2171]، [أبويعلی 5801]، [ابن حبان 4959]۔ اس حدیث کی کچھ شرح حدیث رقم (2586)، میں گذر چکی ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 2602)
اس حدیث میں تین امور سے منع کیا گیا ہے: (1) کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے، ہاں پہلا بائع اگر اجازت دے کہ تم اگر چاہو تو خرید سکتے ہو تو پھر کوئی حرج نہیں، یہ بیع علی بیع اخیہ میں شامل نہ ہوگی، یا پہلا بائع یا مشتری چھوڑ کر چلا جائے تو بھی بیع کرنا درست ہے، ورنہ حرام ہے، بعض لوگوں نے اس کو مسلمان کے ساتھ خاص رکھا ہے جو مناسب نہیں ہے، جمہور کے نزدیک کوئی مسلمان کسی بھی آدمی کی بیع پر بیع نہ کرے۔
(2) دوسرا مسئلہ «تلقى الركبان» یا «تلقى الجلب» کا ہے جس کی تشریح اوپر گذر چکی ہے، یعنی دیہات سے ساز و سامان لانے والوں سے سامان خریدنا، ملنا اور یہ بھی ممنوع اور ناجائز ہے، جب وہ منڈی میں آ جائیں تب ہی ان سے سامان خریدا جائے تاکہ بازار کے بھاؤ انہیں معلوم ہو جائیں۔
(3) تیسرا مسئلہ نجش کا ہے، اور وہ یہ ہے کہ سامان خریدنے کی نیت نہ ہو لیکن دام بڑھانے کی غرض سے اصل خریدار سے بڑھ کر بولی لگائیں اور بھاؤ تاؤ کریں، اس طرح محض بھاؤ بگاڑنے کے لئے بولی چڑھانا سخت گناہ ہے اور اپنے بھائی کو نقصان پہنچانا ہے، اور اس طرح دلالی کرنا حرام ہے۔
واللہ اعلم۔