سنن دارمي
من كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے ابواب
51. باب في الْمُفْلِسِ إِذَا وُجِدَ الْمَتَاعُ عِنْدَهُ:
کوئی آدمی اپنا سامان بعینہ مفلس شخص کے پاس پائے وہی اس کا حقدار ہے
حدیث نمبر: 2626
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى: أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَدْرَكَ مَالَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ إِنْسَانٍ قَدْ أَفْلَسَ أَوْ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو اپنا مال کسی شخص کے پاس پائے جب کہ وہ مفلس قرار دیا جا چکا ہو تو صاحبِ مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہوگا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2632]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2402]، [مسلم 1559]، [أبوداؤد 3519]، [ترمذي 1262]، [نسائي 4690]، [ابن ماجه 2358]، [أبويعلی 6470]، [ابن حبان 5036]، [الحميدي 1065]

وضاحت: (تشریح حدیث 2625)
جب کوئی آدمی کسی سے کوئی چیز خریدے، یا قرض لے اور ادائیگی سے پہلے ہی اس کا دیوالیہ ہو جائے اور وہ محتاج ہو جائے، اور وہ چیز بعینہ ہو بہو اس کے پاس موجود ہو تو اصل مالک ہی اس کا زیادہ حقدار ہوگا، اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا، اور اگر وہ چیز بدل گئی ہو مثلاً سونا خریدا تھا اس کا زیور بنا ڈالا، تو اب سب قرض خواہوں کا حق اس میں برابر ہوگا۔
امام بخاری و امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے لیکن احناف نے اس کے خلاف کہا ہے جو صحیح نہیں۔