سنن دارمي
من كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے ابواب
82. باب في الشُّفْعَةِ:
حق شفعہ کا بیان
حدیث نمبر: 2664
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ شِرْكٍ لَمْ يُقْسَمْ: رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ، فَإِنْ شَاءَ، أَخَذَ، وَإِنْ شَاءَ، تَرَكَ، فَإِنْ بَاعَ وَلَمْ يُؤْذِنْهُ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ". قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تَقُولُ بِهَذَا؟. قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مشترک چیز میں جو تقسیم نہ ہو شفعہ کا فیصلہ کیا۔ خواہ وہ زمین ہو یا باغ، ایک شریک کے لئے اس کا بیچنا اچھا نہیں جب تک کہ دوسرے شریک کی اجازت نہ ہو، اس شریک کو اختیار ہے چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے اور جو ایک شریک اپناحصہ بیچے اور دوسرے شریک کو خبر نہ کرے تو وہ (دوسرا شریک) ہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں (یعنی اس کو حقِ شفعہ حاصل ہے، وہ اتنی رقم جتنی شریک نے لی ہے دے کر غیر شخص سے اپنا حصہ چھین سکتا ہے)۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2670]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2213]، [مسلم 1608]، [أبويعلی 1835]، [ابن حبان 5179]

وضاحت: (تشریح حدیث 2663)
اس حدیث سے حقِ شفعہ تقسیم سے پہلے ثابت ہوا، جب تقسیم ہو جائے اور ہر شریک کو اس کا حصہ الگ مل جائے تو پھر حقِ شفعہ ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میں صراحت سے مذکور ہے۔