سنن دارمي
من كتاب الاستئذان -- کتاب الاستئذان کے بارے میں
39. باب: «السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ»:
سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے
حدیث نمبر: 2705
أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنْ الْعَذَابِ يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ نَوْمَهُ وَطَعَامَهُ وَشَرَابَهُ، فَإِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ نَهْمَتَهُ مِنْ وَجْهِهِ فَلْيُعَجِّلْ الرَّجْعَةَ إِلَى أَهْلِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، آدمی کو سونے کھانے اور پینے سے روک دیتا ہے، اس لئے جب کوئی اپنی ضرورت پوری کر چکے تو اپنے گھر کی طرف واپس ہونے میں جلدی کرے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وهو عند مالك في الاستئذان، [مكتبه الشامله نمبر: 2712]»
اس روایت کی سند قوی ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1804]، [مسلم 1927]، [الموطأ فى كتاب الاستيذان 39، باب ما يؤمر به من العمل فى السفر]، [ابن حبان 2708]

وضاحت: (تشریح حدیث 2704)
کام پورا کرنے کے بعد جلدی گھر لوٹنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب سفر میں بے حد تکالیف اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اور واقعی سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہوا کرتا ہے، گرچہ آج کل سفر میں بہت آسانیاں ہو گئیں ہیں لیکن پھر بھی فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر برحق ہے۔
ریل، موٹر، ہوائی جہاز جس میں بھی سفر ہو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت سے ناموافق حالات سامنے آتے ہیں جن میں کھانے پینے اور سونے کا ہوش نہیں رہتا اور بے ساختہ منہ سے نکل پڑتا ہے: سفر بالواقع عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔
بہرحال حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کو کام ختم کر کے جلد از جلد اپنے گھر لوٹ آنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 622/3] میں کہا کہ اس سے بلاضرورت اہل و عیال سے دور رہنے کی کراہت معلوم ہوئی اور ثابت ہوا کہ اہل و عیال کی طرف جلدی واپس ہونا مستحب ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب آدمی کے غائب رہنے کی وجہ سے بال بچوں کے ضیاع کا اندیشہ ہو، اور آدمی کے اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہنے میں بڑی مصلحت اور حکمت ہے ..... إلخ۔