سنن دارمي
من كتاب الرقاق -- دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
24. باب لَنْ يُنْجِيَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ:
کسی کو اس کا عمل نجات نہ دلائے گا
حدیث نمبر: 2768
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَارِبُوا وَسَدِّدُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَنْ يُنْجِيَهُ عَمَلُهُ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا أَنْتَ. قَالَ:"وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب رہو اللہ کے اور میانہ روی اختیار کرو (یعنی جو نیک کام کرو ٹھیک سے کرو، کمی یا زیادتی نہ کرو) اور یہ یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے ہرگز جنت میں نہ جا سکے گا۔ عرض کیا: یا رسول الله! آپ بھی نہیں؟ فرمایا: میں بھی نہیں سوائے اس کے کہ الله تعالیٰ اپنی رحمت و فضل کے سائے میں مجھے ڈھانپ لے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2775]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6467]، [مسلم 2817]، [أبويعلی 1775]، [ابن حبان 350]

وضاحت: (تشریح حدیث 2767)
اس حدیث میں تمام امور میں میانہ روی کی تعلیم، اور افراط وتفریط، غلو اور تقصیر سے بچنے کا اور اعمالِ صالحہ کے ذریعہ استقامت و صلاح اختیار کرنے کا حکم ہے، نیز یہ کہ آدمی صرف اپنے عمل پر تکیہ و بھروسہ کر کے غرور و گھمنڈ اور ضلالت میں نہ پڑ جائے بلکہ جان لے کہ اللہ کی رحمت اگر شاملِ حال نہ رہے تو وہ جنت میں بھی داخل نہ ہو سکے گا، کیونکہ عملِ صالح منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے اور اصلی سبب رحمت اور عنایتِ الٰہی ہے، نیز اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کرنے والے کو جنّت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے «معاذ اللّٰه وتعالىٰ من ذٰلك علوا كبيرا» علامہ وحیدالزماں [شرح مسلم 3774] میں لکھتے ہیں:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ الله جل شانہ پر کسی بندے کا کوئی زورنہیں، نہ اس کے حکم کے سامنے کسی کو چوں چرا کی مجال ہے، خواہ نبی ہو یا ولی، فرشتہ یا کوئی اور، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بندہ کو اپنے اعمال کا غرہ نہ ہونا چاہیے، جب پیغمبروں کو خصوصاً ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو سید الاوّلین والآخرین ہیں ان کو اپنے اعمال پر کچھ بھروسہ نہ تھا، اور صرف اللہ کے فضل و رحمت پر تکیہ تھا، تو اور کسی غوث یا قطب یا ولی یا درویش کی کیا حقیقت ہے جو اپنے اعمال کی وجہ سے اپنے تئیں جنت کا مستحق خیال کرے، یا کسی اور کو جنت میں لے جا سکے، بقول شخصے:
پیر خود درِ مانده تابہ . . . . . شفاعتِ مرید چہ رسد