سنن دارمي
من كتاب الرقاق -- دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
31. باب في فَضْلِ آخِرِ هَذِهِ الأُمَّةِ:
اس امت کے آخر میں آنے والوں کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2779
أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَيْكٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جُمُعَةَ رَجُلٍ مِنَ الصَّحَابَةِ حَدِّثْنَا: حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا جَيِّدًا: تَغَدَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدٌ خَيْرٌ مِنَّا؟ أَسْلَمْنَا وَجَاهَدْنَا مَعَكَ؟، قَالَ:"نَعَمْ، قَوْمٌ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِكُمْ يُؤْمِنُونَ بِي وَلَمْ يَرَوْنِي".
ابن محیریز نے کہا: میں نے سیدنا ابوجمعہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا جو ایک صحابی تھے: ہمیں ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: سنو! میں تمہیں بہت اچھی حدیث سناتا ہوں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوپہر کو کھانا کھایا، ہمارے ساتھ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم سے بھی کوئی افضل ہو سکتا ہے؟ ہم مسلمان ہوئے، آپ کے ساتھ جہاد کیا؟ فرمایا: ہاں (تم سے افضل) وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے اور میری تصدیق کریں گے حالانکہ انہوں نے مجھ کو دیکھا نہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2786]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 160/4]، [مسند أبى يعلی 1559]، [طبراني 22/4، 3538]، [معجم الصحابة لابن قانع 211]، [التاريخ الكبير للبخاري 310/2، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 2778)
علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ بنی نوع انسان میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر و سیدناعثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تمام صحابہ و صحابیات قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں سے افضل ہیں، صحیح حدیث ہے: «لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ أَحَدٌ مُدَّهُمْ وَلَا نَصِيْفَهُ» ( [أحمد 6/6] ، [مجمع الزوائد 16/10] ، [عاصم 478/2] ) یعنی تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے مثل سونا صدقہ کر دے تب بھی (ان صحابہ کرام) کے مد (ایک پیمانہ 2 رطل کے قریب) کے برابر، بلکہ اس کا آدھا بھی ثواب حاصل نہ کر پائے گا۔
صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث اور آیات موجود ہیں، یہاں اس حدیث میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کی ایک گونہ فضیلت تو ہے لیکن ثواب و درجات میں صحابہ کرام سے افضل نہیں ہو سکتے، ہاں اعمالِ صالحہ انجام دینے کے عوض بعد میں آنے والوں کو الله اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب ضرور حاصل ہوگا۔
اس حدیث سے بھی ایمان میں کمی و زیادتی ہونے کا ثبوت ملا، نیز یہ کہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لئے بھی اس میں خوشخبری و تسلی ہے، وہ مایوس نہ ہوں، ان کے لئے بھی اعلیٰ درجات ہیں۔
والله اعلم۔