صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
11. بَابُ قَوْلِهِ: {الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} :
باب: آیت «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين» کی تفسیر۔
يَلْمِزُونَ: يَعِيبُونَ وَجُهْدَهُمْ، وَجَهْدَهُمْ طَاقَتَهُمْ.
‏‏‏‏ «يلمزون» کا معنی عیب لگاتے ہیں، طعنہ مارتے ہیں۔ «جهدهم» (جیم کے ضمہ) اور «جهدهم» جیم کے نصب کے ساتھ دونوں قرآت ہیں۔ یعنی محنت مزدوری کر کے مقدور کے موافق دیتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4668
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ:" لَمَّا أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ كُنَّا نَتَحَامَلُ فَجَاءَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الْآخَرُ، إِلَّا رِئَاءً، فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79، الْآيَةَ".
مجھ سے ابو محمد بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں خیرات کرنے کا حکم ہوا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھاتے (اور اس کی مزدوری صدقہ میں دے دیتے) چنانچہ ابوعقیل اسی مزدوری سے آدھا صاع خیرات لے کر آئے اور ایک دوسرے صحابی عبدالرحمٰن بن عوف اس سے زیادہ لائے۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اللہ کو اس (یعنی عقیل) کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اس دوسرے (عبدالرحمٰن بن عوف) نے تو محض دکھاوے کے لیے اتنا بہت سا صدقہ دیا ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم‏» کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں پر جنہیں بجز ان کی محنت مزدوری کے کچھ نہیں ملتا۔ آخر آیت تک۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4668  
4668. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہمیں صدقہ دینے کا حکم دیا گیا تو اس وقت ہم مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابو عقیل ؓ (اسی مزدوری سے) آدھا صاع کھجور لے کر آئے۔ ایک دوسرے صحابی اس سے زیادہ لائے تو منافقین کہنے لگے: اللہ تعالٰی کو اس (عقیل ؓ کے) صدقے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور دوسرے نے تو محض ریاکاری کے لیے اتنا مال دیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: یہ ایسے لوگ ہیں کہ خوشی سے صدقہ دینے والے اہل اسلام پر طعن کرتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں جو محنت و مزدوری کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4668]
حدیث حاشیہ:

غزوہ تبوک کے موقع پر قحط سالی تھی، ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں، سفر بھی دوردراز کا تھا مقابلہ بھی اس دور کی انتہائی مضبوط اور زبردست طاقت رومی حکومت سے تھا، اسلحہ اور سواریوں کی بھی قلت تھی، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجے میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمان ؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیا کہ آپ خوش ہوگئے۔
سیدناعمرؓ اپنے گھر کا آدھا سامان بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے آئے۔
الغرض مال دار اورمزدور پیشہ لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیا۔
لیکن منافقین کی طعنہ زنی سے کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔

حضرت ابومسعودانصاری ؓ نے حدیث کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں نے بھی اس وقت محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا تھا اور آج اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ لاکھوں میں کھیل رہا ہوں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں اس سے مقصود یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں قلت مال کے باوجود لوگ محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا کرتے تھے۔
اب اللہ تعالیٰ نے ان پر مال وولت کے دروازے کھول دیے ہیں۔
بڑی آسانی کے ساتھ صدقہ خیرات کرتے ہیں۔
انھیں تنگی کا خوف دامن گیر نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 422/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4668