سنن دارمي
من كتاب الرقاق -- دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
72. باب في الْبِرِّ وَالإِثْمِ:
نیکی اور بدی کا بیان
حدیث نمبر: 2825
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، عَنْ مَعْنِ بْنِ عِيسَى، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ بِنَحْوِهِ.
اس سند سے بھی سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مذکور بالا حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2832]»
ترجمہ اور تخریج وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 2823 سے 2825)
اسلام میں حسنِ اخلاق کی بڑی فضیلت ہے، یہاں نیکی کی تعریف میں حسنِ اخلاق کا ذکر کر کے بڑے بلیغ انداز میں اچھے کاموں کی تعلیم دی دی گئی ہے، اور خندہ پیشانی و مسکراہٹ بھرے چہرے سے ملنا، لوگوں کو تکلیف نہ پہنچانا بلکہ ان کو آرام و سہولت پہنچانے کی سعی کرنا، لوگوں کے کام آنا اور نیکی کے کاموں میں تعاون کرنا، کشادہ دستی سے کام لینا، الله اور رسول کی اطاعت و پیروی، یہ سب نیکیاں اور خوبیاں ہیں جو انسان کی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہیں، اور برائی و بدی کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ برائی یہ ہے کہ ایک تو انسان کے دل میں کھٹک پیدا ہو، یعنی اطمینان و سرور کے بجائے قلق و اضطراب اور گھبراہٹ ہو، دوسرے یہ کہ کسی کا اس سے باخبر ہونا وہ پسند نہ کرے یہ برائی کی بہت جامع تعریف ہے، جس میں صغیرہ کبیرہ سب گناه آجاتے ہیں۔
اس حدیث میں اس امر پر بھی دلیل ہے کہ انسانی فطرت (اگر برے ماحول اور صحبتِ بد کی وجہ سے مسخ نہ ہوئی ہو تو) انسان کی صحیح بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے۔
(شرح رياض الصالحین، حافظ صلاح الدین حفظہ الله)۔