سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
8. باب في الإِخْوَةِ وَالأَخَوَاتِ وَالْوَلَدِ وَوَلَدِ الْوَلَدِ:
بھائی، بہن، بیٹے اور پوتے کا بیان
حدیث نمبر: 2927
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ:"أَنَّهَا كَانَتْ تُشَرِّكُ بَيْنَ ابْنَتَيْنِ وَابْنَةِ ابْن، وَابْنِ ابْن: تُعْطِي الِابْنَتَيْنِ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَشَرِيكُهُمْ. وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يُشَرِّكُ، يُعْطِي الذُّكُورَ دُونَ الْإِنَاثِ، وَقَالَ: "الْأَخَوَاتُ بِمَنْزِلَةِ الْبَنَاتِ"..
مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دو بیٹیوں اور ایک پوتی و ایک پوتے کو میراث میں شریک کرتی تھیں، چنانچہ وہ دونوں بیٹیوں کو دو ثلث دیتی تھیں اور باقی بچا ایک ثلث میں سب کو شریک کرتی تھیں۔
اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پوتی کو شریک نہیں کرتے تھے، جو بچتا وہ صرف مردوں میں تقسیم کرتے، اور وہ کہتے تھے: بہنیں بیٹیوں کے درجے میں ہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وأخرجه ابن أبي شيبة، [مكتبه الشامله نمبر: 2935]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11126]، [المحلی لابن حزم 270/9]، [البيهقي 230/6]

وضاحت: (تشریح احادیث 2924 سے 2927)
یہ مسئلہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کے مطابق اس طرح ہے کہ ایک آدمی کا انتقال ہوا، اور اس نے دو بیٹیاں ایک پوتا اور ایک پوتی چھوڑے تو دونوں بیٹیوں کو دو ثلث، اور باقی بچا ایک ثلث میں سے دو حصے للذکر مثل حظ الانثیین کے تحت پوتے کو، اور ایک حصہ پوتی کو ملے گا۔
اور مسئلہ 9 سے ہوگا۔
دو بیٹیاں . . . . ثلثان . . . . 6
ایک پوتا . . . . سہمان . . . . 2
ایک پوتی . . . . سہم . . . . 1
سیدنا علی اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما بھی یہی کہتے تھے۔
لیکن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک بیٹیوں سے جو پچتا وہ سب پوتے کا ہوگا اور پوتی محروم کر دی جائے گی۔