سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
14. باب قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ في الْجَدِّ:
دادا کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول
حدیث نمبر: 2957
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْعَبْسِيِّ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ الْجَد؟ فَقَالَ: "أَيُّ أَبٍ لَكَ أَكْبَر؟ فَقُلْتُ أَنَا: آدَمُ، قَالَ: أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: يَا بَنِي آدَمَ سورة الأعراف آية 26.
عبدالرحمٰن بن معقل نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دادا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: تمہارے باپ (دادا) میں کون سب سے بڑا ہے؟ (وفي روايۃ: اس سائل سے جواب نہ بن پڑا تو) میں نے کہا: آدم (سب سے بڑے باپ ہیں) انہوں نے جواب دیا: تم نے اللہ تعالیٰ کا قول سنانہیں یا بنی آدم۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن عبد الله بن خالد لم يسمع ابن عباس بينهما الضحاك، [مكتبه الشامله نمبر: 2966]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن عبداللہ بن خالد کا سماع سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11254]، [البيهقي 246/6]

وضاحت: (تشریح احادیث 2948 سے 2957)
مطلب غالباً ان کا یہ تھا کہ جدِ اعلیٰ آدم علیہ السلام کو باپ ہی گردانا، کیوں کہ جب لوگ بنی آدم ہیں تو آدم علیہ السلام ان کے باپ ہی ہوئے، اور جب جدِ اعلیٰ باپ ہے تو جدِ ادنیٰ چھوٹے دادا بھی باپ ہی کے درجہ میں ہوں گے۔
واللہ اعلم۔