سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
26. باب الْكَلاَلَةِ:
کلالہ کا بیان
حدیث نمبر: 3005
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سُئِلَ أَبُو بَكْرٍ عَنْ الْكَلَالَةِ، فَقَالَ:"إِنِّي سَأَقُولُ فِيهَا بِرَأْيِي، فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنْ اللَّهِ، وَإِنْ كَانَ خَطَأً فَمِنِّي، وَمِنَ الشَّيْطَانِ: أُرَاهُ مَا خَلَا الْوَالِدَ وَالْوَلَدِ"، َفَلَمَّا اسْتُخْلِفَ عُمَرُ، قَالَ: إِنِّي لَأَسْتَحْيِي اللَّهَ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا قَالَهُ أَبُو بَكْرٍ.
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کلالہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں اس بارے میں اپنی رائے بیان کرتا ہوں، وہ صحیح ہو تو الله تعالیٰ کی طرف سے (ہدایت) ہے اور اگر غلط ہوا تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے، میرا خیال ہے کہ (کلالہ وہ میت ہے) جس نے نہ باپ چھوڑا ہو اور نہ بیٹا، پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے کہا: مجھے اللہ سے اس بات پر شرم آتی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو کہا اس کو رد کر دوں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3015]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن سند میں انقطاع ہے۔ عاصم: ابن سلیمان ہیں اور عامر: ابن شراحبیل الشعبی ہیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11646]، [عبدالرزاق 19191]، [ابن منصور 591]، [البيهقي 224/6]

وضاحت: (تشریح حدیث 3004)
کلالہ اس مرنے والے کو کہتے ہیں جس نے نہ باپ چھوڑا ہو اور نہ بیٹا۔
سورۂ نساء کی آخری آیت 176 میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ ایسے مرنے والے نے اگر صرف بہن چھوڑی ہے تو اس کو نصف ملے گا، دو بہنیں ہیں تو دو ثلث ملے گا، اور اگر صرف بہن بھائی چھوڑے ہیں تو للذکر مثل حظ الانثین کے قاعدے کے مطابق ترکہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا۔