سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
27. باب في مِيرَاثِ ذَوِي الأَرْحَامِ:
ذوی الارحام کی میراث کا بیان
حدیث نمبر: 3009
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ: أَنَّ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"الْتَمَسَ مَنْ يَرِثُ ابْنَ الدَّحْدَاحَةِ، فَلَمْ يَجِدْ وَارِثًا، فَدَفَعَ مَالَ ابْنِ الدَّحْدَاحَةِ إِلَى أَخْوَالِ ابْنِ الدَّحْدَاحَةِ".
عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری نے خبر دی کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابن الدحداحہ کا وارث تلاش کیا جو انہیں ملا نہیں، چنانچہ انہوں نے ابن الدحداحہ کا مال ان کے ماموؤں کو دے دیا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3019]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں لیکن سند میں انقطاع ہے۔ دیکھیں: [البيهقي 216/6-217]۔ نیز (3093) پر آگے یہ اثر آ رہا ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 3005 سے 3009)
ذوی الارحام ان قرابت داروں کو کہا جاتا ہے جو نہ اصحاب الفروض سے ہوں اور نہ ہی عصبہ سے، جیسے: ماموں، خالہ، پھوپھی، چچا کی بیٹی، بھانجا، بھانجی، اور بیٹی کی اولاد (نواسی نواسے) وغیرہ جو وارث نہیں ہوتے۔
ان قرابت داروں کے وارث ہونے میں اختلاف ہے، بعض صحابۂ کرام، تابعین اور ائمہ رحمہم اللہ ان کی وراثت کے قائل نہیں، کیوں کہ الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انہیں وارث نہیں بنایا، اس کے برعکس بعض صحابہ و تابعین نے انہیں وارث مانا ہے جیسا کہ مذکور بالا اثر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک حدیث میں ہے: «الخال وارث من لا وارث له» [ترمذي 2104] ، اور اس مسئلہ میں یہی مسلک ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اور امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں، الله تعالى کا فرمان ہے: «﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ .....﴾ [الأحزاب: 6] » ۔