سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
31. باب الْوَلاَءِ:
ولاء کا بیان
حدیث نمبر: 3039
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَوْلَى أَخٌ فِي الدِّينِ وَنِعْمَةٌ، أَحَقُّ النَّاسِ بِمِيرَاثِهِ أَقْرَبُهُمْ مِنْ الْمُعْتِقِ".
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مولیٰ دینی بھائی اور آزاد کرانے والا بھائی ہے، اور اس کی میراث کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہے جو آزاد کرنے والے کے سب سے زیادہ قریب ہو۔ «نعمة» سے مراد «صاحب المنه» ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح يونس بن يزيد من أثبت الناس في الزهري، [مكتبه الشامله نمبر: 3049]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن مرسل ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ نے صحابی کا ذکر نہیں کیا۔ دیکھئے: [ابن منصور 272]، [البيهقي 304/1]

وضاحت: (تشریح حدیث 3038)
عہدِ غلامی میں دستور تھا کہ لونڈی یا غلام اپنے آقا کا منہ مانگا روپیہ ادا کر کے آزاد ہو سکتے تھے، مگر آزادی کے بعد ان کی وراثت پہلے مالکوں کو ملتی تھی، اسلام نے جہاں غلامی کو ختم کیا ایسے غلط در غلط رواجوں کو بھی ختم کیا، اور بتلایا کہ جو بھی کسی غلام کو آزاد کرائے اس کی وراثت ترکہ وغیرہ کا غلام کی موت کے بعد اگر کوئی اس کا نسبتی وارث نہ ہو تو آزاد کرنے والا ہی بطورِ عصبہ اس کا وارث قرار پائے گا، لفظ ولاء کا یہی مطلب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الولاء لمن اعتق» (متفق علیہ) آزاد کردہ کی ولاء (حقِ وراثت) اس شخص کے لئے ہے جس نے اسے آزاد کیا۔