سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
32. باب فِيمَنْ أَعْطَى ذَوِي الأَرْحَامِ دُونَ الْمَوَالِي:
ان علمائے کرام کا بیان جو غلام کی وراثت کا مالکان کے علاوہ صرف ذوی الارحام کو حق دار کہتے ہیں
حدیث نمبر: 3053
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ سَلْمَانَ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَسَأَلَهُ عَنْ"فَرِيضَةِ رَجُلٍ تَرَكَ ابْنَتَهُ وَامْرَأَتَه، فَقَالَ: أَنَا أُنْبِئُكَ قَضَاءَ عَلِيٍّ، قَالَ: حَسْبِي قَضَاءُ عَلِيٍّ، قَالَ: قَضَى عَلِيٌّ لِامْرَأَتِهِ الثُّمُنَ، وَلِابْنَتِهِ النِّصْفَ، ثُمَّ رَدَّ الْبَقِيَّةَ عَلَى ابْنَتِهِ".
حیان بن سلمان نے کہا: میں سوید بن غفلہ کے پاس تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور میراث کے حصے کے بارے میں سوال کیا: ایک آدمی نے اپنی بیٹی اور بیوی چھوڑی، انہوں نے کہا: میں تمہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں فیصلہ سناتا ہوں، اس نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہی میرے لئے کافی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کی بیوی کو ثمن دیا اور بیٹی کو نصف، پھر باقی جو بچا وہ بھی بیٹی کی طرف لوٹا دیا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3063]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11208]، [المعرفة و التاريخ للفسوي 191/3]، [البيهقي 242/6]

وضاحت: (تشریح احادیث 3049 سے 3053)
بیہقی کی روایت میں ہے کہ مرنے والے نے بیوی، بیٹی اور مالک کو چھوڑا، مذکورہ بالا روایت میں موالی کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ ہی محل شاہد ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالک کو کچھ نہیں دیا، جو بچا وہ بھی بیٹی کو دیدیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پیچھے کئی روایات گذر چکی ہیں کہ باقی بچے مال کو انہوں نے مالک آزاد کرنے والے کو دیا، ایک رائے یہ بھی ہو سکتی ہے، لیکن پہلی رائے اقرب الی الصواب ہے۔
واللہ اعلم۔