سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
37. باب مِيرَاثِ الْغَرْقَى:
پانی میں ڈوبنے والوں کی میراث کا بیان
حدیث نمبر: 3077
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "كُلُّ قَوْمٍ مُتَوَارِثِينَ عَمِيَ مَوْتُهُمْ فِي هَدْمٍ، أَوْ غَرَقٍ، فَإِنَّهُمْ لَا يَتَوَارَثُونَ، يَرِثُهُمْ الْأَحْيَاءُ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر قسم کے لوگ وارث ہوں گے، لیکن جن کی موت مکان گرنے، غرق ہونے میں مجہول ہو وہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، زنده آدمی ہی ان کے وارث ہوں گے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3087]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19160، 19166]، [ابن منصور 241]، [دارقطني 119/4]

وضاحت: (تشریح حدیث 3076)
جب ایک سے زیادہ افراد پانی میں غرق ہو جائیں، یا کسی اور حادثے کا شکار ہو جائیں مثلاً عمارت کے نیچے آ کر ہلاک ہوں، یا آگ میں جل جائیں، یا ایکسیڈنٹ وغیرہ میں ہلاک ہوں، اور کسی کی موت کی تقدیم و تأخیر کا علم نہ ہو سکے تو حکم یہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے، بلکہ زندہ افراد ہی اپنے مرنے والوں کے وارث ہوں گے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی حادثے میں دو بھائی فوت ہو گئے اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پہلے کون فوت ہوا ہے، ان میں سے ایک اپنے پیچھے بیوی، بیٹی اور چچا چھوڑ گیا، جبکہ دوسرا دو بیٹیاں اور مذکور چچا چھوڑ گیا، تو دونوں کی جائیداد کے وارث مذکورین ورثاء ہیں۔
یہ بھائی ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے، پہلی صورت میں بیوی آٹھواں حصہ لے گی، بیٹی نصف اور باقی چچا لے گا، اور دوسری صورت میں دو تہائی اس کی دونوں بیٹیاں لیں گی اور باقی تہائی چچا لے گا۔