صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِهِ: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} :
باب: آیت «لقد كان في يوسف وإخوته آيات للسائلين» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4689
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ النَّاسِ أَكْرَمُ؟ قَالَ:" أَكْرَمُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاهُمْ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:" فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ، ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ، ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ"، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ:" فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي؟" قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَخِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا". تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے، انہیں سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ انسانوں میں کون سب سے زیادہ شریف ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف یوسف علیہ السلام ہیں «نبي الله ابن نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله» ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا یہ بھی مقصد نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، عرب کے خاندانوں کے متعلق تم معلوم کرنا چاہتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو لوگ شریف سمجھے جاتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی وہ شریف ہیں، جبکہ دین کی سمجھ بھی انہیں حاصل ہو جائے۔ اس روایت کی متابعت ابواسامہ نے عبیداللہ سے کی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4689  
4689. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ باعزت اور معزز ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اور معزز وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ لوگوں نے کہا: ہم نے آپ سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: پھر سب سے زیادہ معزز اور بزرگ حضرت یوسف ؑ جو اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے اور خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا: ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا تم لوگ عرب کے خانوادوں کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: جو لوگ زمانہ جاہلیت میں معزز اور بزرگ خیال کیے جاتے تھے اسلام لانے کے بعد بھی وہ معزز ہیں، بشرطیکہ دین میں سمجھ حاصل کر لیں۔ ابو اسامہ نے عبیداللہ سے روایت کرنے میں عبدۃ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4689]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا کی رو سے شرافت کی بنیاد دین داری اور دین کی سمجھ ہے، اس کے بغیر شرافت کا دعویٰ غلط ہے خواہ کوئی سیدھی کیوں نہ ہو۔
دینی فقاہت شرافت کی اولین بنیاد ہے۔
محض علم کوئی چیز نہیں جب تک اس کو صحیح طور پر سمجھا نہ جائے اسی کا نام فقاہت ہے۔
نام نہاد فقہاء مراد نہیں ہیں جنہوں نے بلا وجہ زمین وآسمان کے قلابے ملائے ہیں۔
جیسا کہ کتب فقہ سے ظاہر ہے، الا ما شاء اللہ۔
تفصیل کے لئے کتاب حقیقۃ الفقہ ملاحظہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4689   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4689  
4689. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ باعزت اور معزز ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اور معزز وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ لوگوں نے کہا: ہم نے آپ سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: پھر سب سے زیادہ معزز اور بزرگ حضرت یوسف ؑ جو اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے اور خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا: ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: اچھا تم لوگ عرب کے خانوادوں کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: جو لوگ زمانہ جاہلیت میں معزز اور بزرگ خیال کیے جاتے تھے اسلام لانے کے بعد بھی وہ معزز ہیں، بشرطیکہ دین میں سمجھ حاصل کر لیں۔ ابو اسامہ نے عبیداللہ سے روایت کرنے میں عبدۃ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4689]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت یوسف ؑ کی نسبی فضیلت بیان ہوئی ہے جو حضرت یوسف ؑ کے ساتھ خاص ہے۔
اس میں کوئی دوسرا پیغمبر ان کے ساتھ شریک نہیں۔
مذکورہ عنوان کے ساتھ اس حدیث کی یہی مناسبت ہے۔

معاون عرب سے مراد عرب کے خاندان ہیں جن کی طرف لوگ منسوب ہوتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں لوگوں کے کمال و نقصان کی وجہ سے انھیں سونے چاندی کی کانوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی۔
چنانچہ روایت میں صراحت ہے کہ لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہیں۔
(مسند أحمد: 539/2)
اس حدیث کی روسے خاندانی شرافت کی بنیاد دین داری اور دین میں سمجھ بوجھ ہے، اس کے بغیر شرافت کا دعوی غلط ہے خواہ کوئی سیدہی کیوں نہ ہو۔
دینی فقاہت شرافت کی اولین بنیاد ہے۔
مخض علم کوئی چیز نہیں جب تک اسے صحیح طور پر سمجھا نہ جائے اسی کا نام فقاہت ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4689