سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
54. باب في عَوْلِ الْفَرَائِضِ:
فرائض میں عول کا بیان
حدیث نمبر: 3195
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "الْفَرَائِضُ مِنْ سِتَّةٍ، لَا نُعِيلُهَا".
عطاء سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: فرائض چھ سے ہیں، ان (مسائل) میں ہم عول نہیں مانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ابن جريج عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3206]»
اس اثر کی سند ابن جریح کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح سند سے بھی یہ اثر مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11236]، [عبدالرزاق 19035]، [ابن منصور 35]

وضاحت: (تشریح حدیث 3194)
«عول» عربی میں کہتے ہیں «عالت الفريضه تعول» یعنی جب سہام اصل حساب سے زیادہ ہو جائیں اور ہر وارث کے حصہ میں کمی واقع ہوجائے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ تمام صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عول سے کام لیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایسا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک عورت کا انتقال ہوا اور اس نے شوہر اور دو بہنیں چھوڑیں، مسئلہ چھ سے بنا، جس میں شوہر کا نصف، اور اخوات لاب کا ثلثین (دو تہائی) حصہ بنتا ہے، اب اگر شوہر کو چھ میں سے نصف 3 حصے دیئے جائیں تو بہنیں کمی میں رہیں گی، اور اگر پہلے بہنوں کو دو ثلث (4) دے دیئے جائیں تو شوہر کے لئے (2) بچیں گے اور وہ نقصان میں رہے گا، اس لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا اورسب نے دیون (قرضوں) پر قیاس کرتے ہوئے طریقۂ عول کو اپنایا اور یہ مسئلہ سات سے حل کیا، جس میں 3 شوہر کو ملے اور باقی 4 دو ثلث بہنوں کو مل گئے، یہی عول ہے۔
پھر علمائے فرائض نے اسی طرح جب 12 کے حصص زیادہ ہوں تو سترہ تک، اور 6 کے دس تک، اور چوبیس میں 47 تک عول کو مانا ہے، لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی مخالفت کی ہے جو اجماعِ صحابہ کے مقابلے میں صحیح نہیں۔
واللہ اعلم۔