سنن دارمي
من كتاب الوصايا -- وصیت کے مسائل
3. باب مَنْ لَمْ يُوصِ:
جو کوئی وصیت نہ کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 3214
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أنبأنا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ:"كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ سورة البقرة آية 180، قَالَ: "الْخَيْرُ: الْمَالُ، كَانَ يُقَالُ: أَلْفًا فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ".
قتادہ رحمہ اللہ سے «إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ. . . . . .» [بقره: 180/2] کے بارے میں مروی ہے کہ اس آیت میں «خَيْرًا» سے مراد مال ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ہزار یا اس سے زیادہ ہو۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3225]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ یزید: ابن ہارون، اور ہمام: ابن یحییٰ ہیں۔ د یکھئے: [ابن أبى شيبه 10991]، [تفسير طبري 121/2]

وضاحت: (تشریح حدیث 3213)
یعنی آیتِ مذکورہ میں ہے: جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت قریب آئے اور اس کے پاس مال ہو تو والدین یا عزیز و اقارب کے لئے مناسب وصیت کرنا لازمی ہے، یہ مؤمنین پر واجب ہے۔
تو اس آیت میں خیراً سے مراد مال ہے جتنا بھی ہو۔
ان احادیث و آثار سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کے پاس مال و دولت ہے تو وصیت ضرور کرنی چاہیے، اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ اچھا سلوک کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کے احسان سے فائدہ اٹھائیں اور دعائیں دیں۔
اوپر حدیث میں گذرا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت نہیں کی، اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت نہیں کی، اس سے مراد مال کی وصیت ہے، کیوں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث میں ہے کہ پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی درہم و دینار چھوڑا ہی نہیں جس کی وصیت کرتے، البتہ دینی امور سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد وصیتیں کی ہیں، جیسے: نماز کا خیال رکھنا، اور غلام و لونڈی، «اِتَّقُوْا الدُّنْيَا وَالتَّقُوْا النِّسَاءَ» دنیا سے بچنا اور عورتوں سے بچ کے رہنا، میری قبر کو صنم نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے، کتاب و سنّت کو مضبوطی سے تھامے رہنا، گمراہ نہ ہو گے، وغیرہ ذلک۔
اس سے معلوم ہوا کہ اولاد اور اہلِ خانہ کو دینی امور میں وصیت کرنا چاہیے۔
کچھ وصیتوں کا ذکر آگے آ رہا ہے۔