سنن دارمي
من كتاب الوصايا -- وصیت کے مسائل
7. باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ:
ایک تہائی کی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: 3227
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ وَهُوَ بِمَكَّةَ، وَلَيْسَ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ، فَقُلْتُ لَهُ:"إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَالَ: فَأُوصِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
محمد بن سعد (ابن ابی وقاص) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ان کے پاس تشریف لائے، ان کی ایک ہی لڑکی تھی، سیدنا سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میری صرف ایک ہی لڑکی ہے، میں اپنے کل مال کی (کار خیر کے لئے) وصیت کئے دیتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر آدھے مال کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: پھر ثلث کی وصیت کرتا ہوں؟ سیدنا سعد رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ایک تہائی گرچہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3238]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 56، 6733]، [مسلم 1628]، [أبوداؤد 2764]، [ترمذي 2116]، [نسائي 3638]، [ابن ماجه 2708]، [أحمد 137/1]، [أبويعلی 727]، [ابن حبان 4249]، [الحميدي 66]

وضاحت: (تشریح حدیث 3226)
پیچھے گذر چکا ہے کہ مال اگر زیادہ ہے تو اچھے کاموں کے لئے خرچ کی وصیت کرنا مستحب ہے۔
قربان جائیں اسلامی تعلیمات کے، ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ کل مال راہِ الٰہی میں خرچ کر دیں یا خرچ کر دینے کی وصیت کریں، بلکہ اس کارِ خیر کو محدود فرما دیا، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی مال خرچ کرنے کی اجازت دی اور سنہرے حرفوں سے لکھے جانے والی نصیحتیں فرمائیں کہ اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو گے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ وہ تنگدست رہیں اور لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔
سبحان اللہ العظیم! کیا تعلیماتِ نبویہ ہیں۔
مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔