سنن دارمي
من كتاب الوصايا -- وصیت کے مسائل
7. باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ:
ایک تہائی کی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: 3228
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"اشْتَكَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حَتَّى أُدْنِفْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أُرَانِي إِلَّا أَلَمَّ بِي وَأَنَا ذُو مَالٍ كَثِيرٍ، وَإِنَّمَا يَرِثُنِي ابْنَةٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَبِنِصْفِهِ؟ قَال: لَا، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَتْرُكْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ فُقَرَاءَ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ بِأَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ لَا تُنْفِقُ نَفَقَةً إِلَّا آجَرَكَ اللَّهُ فِيهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ".
عامر بن سعد نے اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ بیمار پڑ گیا اور مرنے کے قریب ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں سمجھتا ہوں اس بیماری سے جان بر نہ ہو سکوں گا اور میں بہت مال دار ہوں اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنا سارا مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر نصف مال صدقہ کر دیتا ہوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر تہائی مال صدقہ کردوں؟ فرمایا: ہاں، ایک تہائی صدقہ کر سکتے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تہائی مال، گرچہ ایک تہائی (کا حصہ) بھی بہت ہے، بیشک تم اپنے وارثین کو مال دار چھوڑو گے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر (تنگدست) چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے (مانگتے) پھریں، اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس میں الله تعالیٰ تمہیں اجر و ثواب دے گا یہاں تک کہ اس لقمہ پر ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف محمد بن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3239]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 3227)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی بچوں پر خرچ کرنا، حلال کمائی سے انہیں کھلانے پلانے اور کپڑے پہنانے میں بھی اجر و ثواب ہے، اور اپنے اہل و عیال پر آدمی کو خرچ کرنا چاہیے۔
کارِ خیر میں خرچ کرنے یا اس کے لئے وصیت کرنے کی بڑی فضیلت ہے، لیکن وارثین کو تنگ دست و پریشان حال چھوڑنا بھی درست نہیں، اسلام ہر کام میں میانہ روی سکھلاتا ہے: «﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾ [بني إسرائيل: 29] » یعنی انسان نہ بخل سے کام لے اور نہ سب کچھ اسراف و تبذیر میں خرچ کر ڈالے اور پھر بعد میں پچھتائے اور اپنے آپ کو ملامت کرے۔