سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن -- قرآن کے فضائل
15. باب في فَضْلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ:
سورہ البقرہ اور آل عمران کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3423
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا بَشِيرٌ هُوَ ابْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "تَعَلَّمُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: تَعَلَّمُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا الزَّهْرَاوَانِ، وَإِنَّهُمَا تُظِلَّانِ صَاحِبَهُمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ: غَيَايَتَانِ، أَوْ: فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ يَلْقَى صَاحِبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَعْرِفُنِي؟ فَيَقُولُ: مَا أَعْرِفُكَ، فَيَقُولُ: أَنَا صَاحِبُكَ الْقُرْآنُ الَّذِي أَظْمَأْتُكَ فِي الْهَوَاجِرِ، وَأَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَإِنَّ كُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ، وَإِنَّكَ الْيَوْمَ مِنْ وَرَاءِ كُلِّ تِجَارَةٍ، فَيُعْطَى الْمُلْكَ بِيَمِينِهِ، وَالْخُلْدَ بِشِمَالِهِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ، وَيُكْسَى وَالِدَاهُ حُلَّتَيْنِ لَا يُقَوَّمُ لَهُمَا الدُّنْيَا، فَيَقُولَانِ: بِمَ كُسِينَا هَذَا؟ وَيُقَالُ لَهُمَا: بِأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَاصْعَدْ فِي دَرَجِ الْجَنَّةِ وَغُرَفِهَا، فَهُوَ فِي صُعُودٍ مَا دَامَ يَقْرَأُ هَذًّا كَانَ، أَوْ تَرْتِيلًا".
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: سورہ بقرہ کو سیکھو، اس کو حاصل کرنا (یعنی پڑھنا) باعث برکت اور ترک کرنا حسرت ہے، اور جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: سورہ البقرہ اور آل عمران کا علم حاصل کرو، یہ دونوں سورتیں چمکیلی ہیں اور قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے پر سایہ کئے ہوں گی جیسے کہ دو بادل ہیں یا سائبان ہیں، یا اڑتے ہوئے پرندوں کی دو ٹکڑیاں ہیں، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے حجت کرتی (دفاع کرتی) ہوئی آئیں گی، اور قیامت کے دن قرآن پاک اپنے پڑھنے والے کے پاس جب وہ قبر سے اٹھےگا، تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا (جس کا بیماری اور سفر کی وجہ سے رنگ بدل گیا ہو) اور قرآن اس سے کہے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ جواب دے گا: نہیں، قرآن کہے گا: میں قرآن تمہارا وہ ساتھی ہوں جس نے گرمی کی دوپہر میں تمہیں پیاسا رکھا (یعنی پیاس میں بھی قرآن پڑھتے رہے)، راتوں کو تمہیں جگایا، جب کہ ہر تجارت پیشہ آدمی اپنی تجارت میں لگے تھے، لیکن آج تم ہر قسم کی تجارت کے پیچھے ہو، پھر اس کو داہنے ہاتھ میں ملک عطا ہو گی اور بایاں ہاتھ میں خلد بریں، اور اس کے سر پر وقار کا تاج پہنایا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے جو دنیا کے لحاظ سے انمول ہوں گے، وہ دونوں ماں باپ کہیں گے: یہ لباس ہم کو کیوں پہنائے گئے ہیں؟ ان کو جواب دیا جائے گا: تمہارے بیٹے کے قرآن یاد کرنے کی وجہ سے ہے، پھر اس (حافظ قرآن) سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی سیڑھی و بالا خانوں پر چڑھتے جاؤ، چنانچہ وہ ہذا یا ترتیلا جس طرح بھی پڑھے جب تک پڑھتا رہے گا چڑھتارہے گا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر، [مكتبه الشامله نمبر: 3434]»
بشیر بن مہا جر کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن اس کے بعض جملوں کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 804]، [ابن ماجه 3781]، [أحمد 348/5، واللفظ له]، [الحاكم 2057]، [ابن أبى شيبه 10094]، [عبدالرزاق 6014]

وضاحت: (تشریح حدیث 3422)
یعنی اس کو اتنا بلند مقام جنّت میں ملے گا کہ پڑھتا جائے گا اور چڑھتا جائے گا، جنّت میں نہ تھکان ہوگی نہ پریشانی، اور «هَذًّا و تَرْتِيْلًا» قرآن پاک پڑھنے کے انداز ہیں جو تجوید و ترتیل و حدر کے لحاظ سے علمائے قرأت نے مقرر کئے ہیں، یعنی جلدی جلدی پڑھے یا خوب ٹھہر ٹھہر کر تجوید و قراءت کے ساتھ پڑھے۔
اس کا مقام اعلیٰ سے اعلیٰ ہوگا۔