سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن -- قرآن کے فضائل
34. باب التَّغَنِّي بِالْقُرْآنِ:
ترنم کے ساتھ قرآن پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 3527
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ آلِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "قَدِمَ سَلَمَةُ الْبَيْذَقُ الْمَدِينَةَ، فَقَامَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَقِيلَ لِسَالِمٍ: لَوْ جِئْتَ فَسَمِعْتَ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كَانَ بِبَابِ الْمَسْجِدِ، سَمِعَ قِرَاءَتَهُ، رَجَعَ فَقَالَ: غِنَاءٌ غِنَاءٌ".
سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کے اہل میں سے کسی نے کہا: سالم البيذق مدینہ طیبہ آئے اور نماز پڑھانے لگے تو سالم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کاش آپ بھی جا کر ان کی قراءت سنتے، چنانچہ جب سالم بن عبداللہ دروازے پر پہنچے اور ان کی قراءت سنی تو واپس لوٹ آئے اور کہا: گانا ہے گانا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه جهالة وابن جريج قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3538]»
اس روایت میں جہالت ہے، اور کسی نسخہ میں سلمہ البيذق ہے کسی میں سالم، نیز ابن جریح کا عنعنہ بھی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ (”گانے والوں اور اہلِ کتاب کے لب و لہجہ سے قرآن کی تلاوت میں پرہیز کرو، میرے بعد ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو گویوں کی طرح گا گا کر پڑھے گی، یہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، اور ان کے دل فتنوں میں مبتلا ہوں گے“ (او كما قال صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی ایسی تلاوت قطعاً منع ہے، سالم جو کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے ہیں ان کے والد نہایت سختی سے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے سرمو انحراف یا خلاف ورزی ان پر شاق گذرتی تھی، کوئی بعید نہیں کہ اس قاری کی قراءت سن کر مذکورہ حدیث کے مطابق گویے کی طرح قرآن پڑھنے کو انہوں نے ناپسند کیا اور گھر واپس لوٹ گئے۔