صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے انسان کو شروع میں جیسا پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو ہم دوبارہ پھر لوٹائیں گے“۔
حدیث نمبر: 4740
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ شَيْخٌ مِنْ النَّخَعِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104، ثُمَّ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ أَلَا إِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ إِلَى قَوْلِهِ شَهِيدٌ سورة المائدة آية 117، فَيُقَالُ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن نعمان نے جو قبیلہ نخعی کا ایک بوڑھا تھا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ سنایا۔ فرمایا تم قیامت کے دن اللہ کے سامنے ننگے پاؤں ننگے بدن بےختنہ حشر کئے جاؤ گے جیسا کہ ارشاد باری ہے «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏» پھر سب سے پہلے قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والے دوزخیوں میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا پروردگار! یہ تو میرے ساتھ والے ہیں۔ ارشاد ہو گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہاری وفات کے بعد کیا کیا کرتوت کئے ہیں۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا آخر آیت تک۔ ارشاد ہو گا یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھر گئے جب تو ان سے جدا ہوا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423  
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4740  
4740. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: تم سب اللہ کے حضور اس حالت میں اٹھائے جاؤ گے کہ تمہارے پاؤں اور بدن ننگے ہوں گے اور تمہارا ختنہ بھی نہیں کیا ہو گا۔ جیسے ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی تھی (اسی طرح) ہم اسے دوبارہ لوٹائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔ پھر قیامت کے دن سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ سیدنا ابراہیم ؑ ہوں گے، آگاہ رہو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور ان کو بائیں جانب سے پکڑا جائے گا تو اس وقت میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تھا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے نے کہا تھا: جب تک میں ان میں موجود رہا ان کے حالات سے آگاہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس وقت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4740]
حدیث حاشیہ:
رافضی کم بخت اس حدیث کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ آنحضرت کے کل اصحاب معاذ اللہ! آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھر گئے مگر چند صحابہ جیسے جابر بن عبداللہ انصاری، ابو ذر غفاری، مقداد بن اسود، سلمان فارسی رضی اللہ عنہم اسلام پر قائم اور اہل بیت کی محبت پر مضبوط رہے۔
ہم کہتے ہیں کہ صحابہ سب کے سب اسلام پر قائم رہے خصوصاً عشرہ مبشرہ جن کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہشت کی بشارت دی اور پیغمبر کا وعدہ جھوٹ نہیں ہوسکتا۔
قرآن شریف ان بزرگوں کے فضائل سے بھرا ہوا ہے اور متعدد حدیثیں ان کے مناقب میں وارد ہیں اگر معاذاللہ! رافضیوں کا کہنا صحیح ہو تو آنحضرت کی صحبت کی برکات ایک درویش کی صحبت سے کم قرار پاتی ہیں اور پیغمبر کی بڑی توہین اور تحقیر ہوتی ہے۔
اب بعض صحابہ سے جو ایسی باتیں منقول ہیں جن میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ ورسول کی مرضی کے خلاف تھیں تو اول تو یہ روایتیں صحیح نہیں ہیں۔
دوسرے اگر صحیح بھی ہوں تو صحابہ معصوم نہ تھے۔
خطا اجتہادی ان سے ممکن ہے جس پر وہ معذور سمجھے جانے کے لائق ہیں اور حدیث سے ثابت ہے کہ مجتہد اگر خطا بھی کرے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔
علاوہ اس کے اجلہ صحابہ جیسے حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں ان سے تو کوئی ایسی بات منقول نہیں ہے جو شرع کے خلاف ہو۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4740   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4740  
4740. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: تم سب اللہ کے حضور اس حالت میں اٹھائے جاؤ گے کہ تمہارے پاؤں اور بدن ننگے ہوں گے اور تمہارا ختنہ بھی نہیں کیا ہو گا۔ جیسے ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی تھی (اسی طرح) ہم اسے دوبارہ لوٹائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔ پھر قیامت کے دن سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ سیدنا ابراہیم ؑ ہوں گے، آگاہ رہو! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور ان کو بائیں جانب سے پکڑا جائے گا تو اس وقت میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تھا۔ اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے نے کہا تھا: جب تک میں ان میں موجود رہا ان کے حالات سے آگاہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس وقت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4740]
حدیث حاشیہ:

جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوگئے تھے وہ دوردراز کے رہنے والے بدولوگ تھے جوذاتی مفادات اور قتل وغارت کے ڈر سے مسلمان ہوئے تھے، اس لیے لفظ "رجال" کا اطلاق ہوا ہے جو ان کی تذلیل وتحقیر کی طرف اشارہ ہے۔
اس سے قطعاً وہ لوگ مراد نہیں ہیں جو ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے اورآپ کے وفادار اور سچے جاں نثار تھے، ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے خوش ہوئے خاص طور پر عشرہ مبشرہ جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی مجلس میں جنتی ہونے کی بشارت دی ہے اسی طرح شیخین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اور وزیرتھے اور مرنے کے بعد بھی آپ کے پہلو میں محو استراحت ہیں، ان کی تکفیر تو کوئی بے دین ہی کرسکتا ہے، اہل ایمان کے لیے ایسا ممکن نہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4740