صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ} أَلِنْ جَانِبَكَ:
باب: آیت کی تفسیر «واخفض جناحك» یعنی اپنا بازو نرم رکھے۔
حدیث نمبر: 4771
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أن أبا هريرة، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ:" يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ، بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا". تَابَعَهُ أَصْبَغُ،عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے خاندان کے قرابت داروں کو ڈرا نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر) آواز دی کہ اے جماعت قریش! یا اسی طرح کا اور کوئی کلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ (اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو) اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنی عبد مناف! اللہ کے ہاں میں تمہارے لیے بالکل کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔ اس روایت کی متابعت اصبغ نے ابن وہب سے، انہوں نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے کی ہے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2753  
´روز قیامت اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی `
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/بَابُ هَلْ يَدْخُلُ النِّسَاءُ وَالْوَلَدُ فِي الأَقَارِبِ: 2753]

تخريج الحديث:
[123۔ البخاري فى: 55 كتاب الوصايا: 11 باب هل يدخل النساء والولد فى الأقارب 2705 مسلم 206]
فھم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی، روز قیامت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا حتی کہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے مشرک رشتہ داروں کو نہیں بچا سکیں گے۔ قرآن میں ہے کہ «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ» [الانعام: 164] (روز قیامت) کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ لہٰذا کسی پیر، فقیر، بزرگ، درویش، ولی اور امام پر تکیہ کر کے بلا جھجک گناہوں میں مصروف رہنا دانشمندی نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 123   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3185  
´سورۃ الشعراء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين» اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3185]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ دوسری عام مجلس ہو گی،
اور پہلی مجلس خاص اہل خاندان کے ساتھ ہوئی ہو گی؟۔
2؎:
یعنی اس کا حق (اس دنیا میں) ادا کروں گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3185   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4771  
4771. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر فرمانے لگے: اے جماعت قریش! یا اس جیسا کوئی اور کلمہ کہا۔ تم اپنی جانوں کو (اللہ کے عذاب سے) خرید لو۔ میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبدمناف! میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ! جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کے ہاں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو۔ میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔ اصبغ نے ابن وہب سے، انہوں نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے ابویمان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4771]
حدیث حاشیہ:
اس سے ان نام نہاد مسلمانوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو زندہ مردہ پیروں فقیروں کا دامن اس لئے پکڑے ہوئے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ان کو بخشوا لیں گے۔
کتنے کم عقل نذر ونیاز کے اسی چکر میں گرفتار ہیں اور روزانہ ان کے گھروں میں نت نئی نیازیں ہوتی رہتی ہیں۔
سترہویں کا بکرا اور گیارہویں کا مرغا یہ ایسے ہی دھوکے ہیں۔
اللہ پاک مسلمانوں کو ان سے نجات بخشے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4771   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4771  
4771. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر فرمانے لگے: اے جماعت قریش! یا اس جیسا کوئی اور کلمہ کہا۔ تم اپنی جانوں کو (اللہ کے عذاب سے) خرید لو۔ میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبدمناف! میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کی بارگاہ میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ اے صفیہ! جو رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی ہیں، میں اللہ کے ہاں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو۔ میں اللہ کے ہاں تمہیں کوئی نفع نہیں دوں گا۔ اصبغ نے ابن وہب سے، انہوں نے یونس سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کرتے ہوئے ابویمان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4771]
حدیث حاشیہ:

اِنذَار کی چار صورتیں ہیں:
اِنذَار عشيره، اِنذَار قوم، اِنذَارعرب اور اِنذَار جميع بني آدم۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چارصورتوں کواختیار فرمایا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے قریش کے گروہ! تم اپنی جانوں کودوزخ سے بچا لو۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 501(204)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں انگلیوں کو کانوں میں دے کر بآواز بلند کہا:
اے بنی عبد مناف! تم پر صبح کے وقت کوئی لشکر حملہ کرنے والا ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3186)

اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ اگر خاتمہ کفر پر ہوتو خاندانی تعلق قیامت کے دن کوئی فائدہ نہیں دے گا یہاں تک کہ پیغمبر کی اولاد اور بیوی بھی اگرمومن نہیں تو بھی رسول انھیں قیامت کے دن کوئی نفع نہیں دے سکے گا جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا معاملہ ہے۔

یہاں ایک اشکال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔
حالانکہ قیامت کے دن آپ کی سفارش سے گناہوں کی معافی اور عذاب سے نجات ملے گی؟ اس کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں:
۔
ابھی تک آپ کو اپنی شفاعت کبریٰ اور صغریٰ کا علم نہیں تھا کیونکہ یہ آغاز اسلام کا واقعہ ہے۔
۔
سفارش کرنے والا فائدہ نہیں دے سکتا وہ تو التجا کرسکتا ہے، اگرقبول ہوجائے تو ٹھیک بصورت دیگر وہ کسی کو مجبور نہیں کرسکتا توآپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ میں چھڑا تو نہیں سکتا، البتہ سفارش ضرور کروں گا۔
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی اللہ کی اجازت سے ہوگی، گویا آپ نے فرمایا ہے کہ میں ذاتی طور پر کچھ نہیں کرسکوں گا، ہاں اللہ کے اذن سے تمہاری سفارش ضرور کروں گا، گویا آپ کی سفارش اللہ کے اذن سے مقید ہے۔
واللہ اعلم۔

اس حدیث سے ان نام نہاد مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے جو زندہ اور مردہ پیروں، فقیروں کا دامن اس لیے پکڑے ہوئے ہیں کہ وہ قیامت کے دن انھیں بخشوا لیں گے۔
بہت سےکم عقل لوگ نذر ونیاز کے اسی چکر میں گرفتار ہیں۔
بہرحال اللہ کے حضور کسی نبی، ولی، فرشتے اور مقرب شخص کو دم مارنے کی جرءت نہیں ہوگی ہاں سفارش کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی اللہ کے اجازت سے ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن سرخرو فرمائے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4771