صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”یہاں تک کہ جب ان فرشتوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھنے لگتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے وہ کہتے ہیں کہ حق اور (واقعی) بات کا حکم فرمایا ہے اور وہ عالیشان ہے سب سے بڑا ہے“۔
يُقَالُ: مُعَاجِزِينَ: مُسَابِقِينَ، بِمُعْجِزِينَ: بِفَائِتِينَ، مُعَاجِزِيَّ: مُسَابِقِيَّ، سَبَقُوا: فَاتُوا، لَا يُعْجِزُونَ: لَا يَفُوتُونَ، يَسْبِقُونَا: يُعْجِزُونَا، وَقَوْلُهُ: بِمُعْجِزِينَ سورة الأنعام آية 134: بِفَائِتِينَ وَمَعْنَى، مُعَاجِزِينَ: مُغَالِبِينَ يُرِيدُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَنْ يُظْهِرَ عَجْزَ صَاحِبِهِ مِعْشَارٌ عُشْرٌ، يُقَالُ: الْأُكُلُ الثَّمَرُ، بَاعِدْ: وَبَعِّدْ وَاحِدٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لا يَعْزُبُ سورة سبأ آية 3: لَا يَغِيبُ سَيْلَ الْعَرِمِ السُّدُّ مَاءٌ أَحْمَرُ أَرْسَلَهُ اللَّهُ فِي السُّدِّ فَشَقَّهُ وَهَدَمَهُ وَحَفَرَ، الْوَادِيَ، فَارْتَفَعَتَا عَنِ الْجَنْبَيْنِ، وَغَابَ عَنْهُمَا الْمَاءُ فَيَبِسَتَا، وَلَمْ يَكُنِ الْمَاءُ الْأَحْمَرُ مِنَ السُّدِّ، وَلَكِنْ كَانَ عَذَابًا أَرْسَلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَيْثُ شَاءَ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ: الْعَرِمُ الْمُسَنَّاةُ بِلَحْنِ أَهْلِ الْيَمَنِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْعَرِمُ الْوَادِي السَّابِغَاتُ الدُّرُوعُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: يُجَازَى يُعَاقَبُ، أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ: بِطَاعَةِ اللَّهِ، مَثْنَى وَفُرَادَى: وَاحِدٌ وَاثْنَيْنِ، التَّنَاوُشُ: الرَّدُّ مِنَ الْآخِرَةِ إِلَى الدُّنْيَا، وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ: مِنْ مَالٍ أَوْ وَلَدٍ أَوْ زَهْرَةٍ، بِأَشْيَاعِهِمْ: بِأَمْثَالِهِمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَالْجَوَابِ: كَالْجَوْبَةِ مِنَ الْأَرْضِ الْخَمْطُ الْأَرَاكُ وَالْأَثَلُ الطَّرْفَاءُ الْعَرِمُ الشَّدِيدُ.
‏‏‏‏ «معاجزين‏» کے معنی آگے بڑھنے والے۔ «بمعجزين‏» ہمارے ہاتھ سے نکل جانے والے۔ «سبقوا‏» کے معنی ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ «لا يعجزون‏» ہمارے ہاتھ سے نہیں نکل سکتے۔ «يسبقونا‏» ہم کو عاجز کر سکیں گے۔ «بمعجزين‏» عاجز کرنے والے (جیسے مشہور قرآت ہے) اور «معاجزين‏» (جو دوسری قرآت ہے) اس کا معنی ایک دوسرے پر غلبہ ڈھونڈنے والے ایک دوسرے کا عجز ظاہر کرنے والے۔ «معشار‏» کا معنی دسواں حصہ۔ «لأكل» پھل۔ «باعد‏» (جیسے مشہور قرآت ہے) اور «بعد» جو ابن کثیر کی قرآت ہے دونوں کا معنی ایک ہے اور مجاہد نے کہا «لا يعزب‏» کا معنی اس سے غائب نہیں ہوتا۔ «العرم» وہ بند یا ایک لال پانی تھا جس کو اللہ پاک نے بند پر بھیجا وہ پھٹ کر گر گیا اور میدان میں گڑھا پڑ گیا۔ باغ دونوں طرف سے اونچے ہو گئے پھر پانی غائب ہو گیا۔ دونوں باغ سوکھ گئے اور یہ لال پانی بند میں سے بہہ کر نہیں آیا تھا بلکہ اللہ کا عذاب تھا جہاں سے چاہا وہاں سے بھیجا اور عمرو بن شرحبیل نے کہا «عرم» کہتے ہیں بند کو یمن والوں کی زبان میں۔ دوسروں نے کہا کہ «عرم» کے معنی نالے کے ہیں۔ «السابغات» کے معنی زرہیں۔ مجاہد نے کہا۔ «يجازى» کے معنی عذاب دیئے جاتے ہیں۔ «أعظكم بواحدة‏» یعنی میں تم کو اللہ کی اطاعت کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ «مثنى» دو دو کو۔ «فرادى‏» ایک ایک کو کہتے ہیں۔ «التناوش‏» آخرت سے پھر دنیا میں آنا (جو ممکن نہیں ہے)۔ «ما يشتهون‏» ان کی خواہشات مال و اولاد دنیا کی زیب و زینت۔ «بأشياعهم‏» ان کی جوڑ والے دوسرے کافر۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كالجواب‏» جیسے پانی بھرنے کے گڑھے جیسے «جوبته» کہتے ہیں حوض کو۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ «جواب‏» اور «جوبة» کا مادہ ایک ہے کیونکہ «جوابى»، «جابية» کا جمع ہے۔ اس کا عین کلمہ ب اور «جوبة» کا عین کلمہ واؤ ہے۔ «خمط» پیلو کا درخت۔ «لأثل» جھاؤ کا درخت۔ «العرم» سخت زور کی (بارش)۔
حدیث نمبر: 4800
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:" إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا؟ قَالَ: رَبُّكُمْ، قَالُوا: لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ، وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ، فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ، فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الْكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا، فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سن بھاگتے ہیں، شیطان آسمان کے نیچے یوں نیچے اوپر ہوتے ہیں، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیطان ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ ساحر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آ ڈبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے (ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نہیں کہا تھا، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث194  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 194]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔

(2)
فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔

(3)
اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔
اس سے اللہ تعالٰی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔

(4)
جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔

(5)
کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔
مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(6)
کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی شیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی نجومی (یا رَمَّال)
کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم، السلام، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان، حديث: 2230)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3223  
´سورۃ سبا سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ آسمان پر کسی معاملے کا حکم و فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پر ہلانے سے پھڑپھڑانے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے تو ان زنجیر پتھر پر گھسٹ رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: حق بات کہی ہے۔ وہی بلند و بالا ہے، آپ نے فرمایا: شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3223]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبأ: 23) کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3989  
´باب:۔۔۔`
اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حدیث ۱؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قول «حتى إذا فزع عن قلوبهم» یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے (سورۃ سبا: ۲۳) ۲؎ سے یہی مراد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3989]
فوائد ومسائل:
لفظ (فزع) ف کے ضمہ زا مشدد کے کسرہ کےساتھ ہے۔
جبکہ ایک قراءت میں مروی ہے۔
(یعنی ر غیر منقوط اور غ منقوط کےساتھ۔
)
ابن عامر اور یعقوب کی قراءت میں (زمنقوط کےساتھ) (عربی میں لکھا ہے) بصیغہ ماضی آیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3989   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4800  
4800. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالٰی آسمان میں کسی معاملے کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے اللہ تعالٰی کے فرمان کے سامنے جھکاؤ کے لیے عاجزی کے طور پر اپنے پروں کو اس طرح مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ جو کچھ اللہ نے فرمایا ہوتا ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل برحق ہے اور وہی سب سے بلند و برتر ہے، تو سنی ہوئی بات چوری کرنے والے شیاطین بھی اسے سن لیتے ہیں۔ اور چوری کرنے والے شیاطین اس طرح ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوتے ہیں۔۔ سفیان نے اپنی ہتھیلی سے اس کی کیفیت بیان فرمائی: ہتھیلی کو ایک طرف کیا اور انگلیوں کے درمیان فرق کیا۔۔ بہرحال وہ اس کلمہ حق کو سن کر اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے اور وہ دوسرا اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4800]
حدیث حاشیہ:
آج کے سائنسی دور میں بھی ایسے کمزور اعتقاد والے بکثرت موجود ہیں جو جوتشیوں کی باتوں میں آ کر اپنا سب کچھ برباد کر ڈالتے ہیں۔
مسلمانوں میں بھی ایسے کمزور خیال کے عوام موجود ہیں حالانکہ یہ اسلامی تعلیم کے سخت خلاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4800   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4800  
4800. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالٰی آسمان میں کسی معاملے کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے اللہ تعالٰی کے فرمان کے سامنے جھکاؤ کے لیے عاجزی کے طور پر اپنے پروں کو اس طرح مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچی جا رہی ہو۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ جو کچھ اللہ نے فرمایا ہوتا ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل برحق ہے اور وہی سب سے بلند و برتر ہے، تو سنی ہوئی بات چوری کرنے والے شیاطین بھی اسے سن لیتے ہیں۔ اور چوری کرنے والے شیاطین اس طرح ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوتے ہیں۔۔ سفیان نے اپنی ہتھیلی سے اس کی کیفیت بیان فرمائی: ہتھیلی کو ایک طرف کیا اور انگلیوں کے درمیان فرق کیا۔۔ بہرحال وہ اس کلمہ حق کو سن کر اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے اور وہ دوسرا اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4800]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا سبب ورود ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس کی وجہ سے ماحول روشن ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پوچھا:
دور جاہلیت میں جب ستارہ ٹوٹتا تھا تو تم کیا خیال کرتے تھے؟ انھوں نے عرض کی:
ویسے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارے خیال کے مطابق جس رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا یا مر جاتا تو یہ کیفیت پیدا ہوتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایسا نہیں ہے کہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے ستارہ ٹوٹتا ہو، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمانوں میں کرتا ہے۔
۔
۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5819(2229)

بہرحال آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت شفاعت کے سلسلے میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اسکے ہاں سفارش اسے فائدہ دے سکتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ خود اجازت دے۔
(سبا 34: 23)
سفارش اللہ کی بارگاہ میں اتنی عالی مرتبہ اور بڑی چیز ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اوربڑی شخصیت ہی کو۔
وہاں تو یہ عالم ہے کہ فرشتے اللہ کا حکم سن کر بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4800