صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
75. بَابُ الأَسِيرِ أَوِ الْغَرِيمِ يُرْبَطُ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: قیدی یا قرض دار جسے مسجد میں باندھ دیا گیا ہو۔
حدیث نمبر: 461
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رَوْحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلَاةَ، فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي، قَالَ: رَوْحٌ فَرَدَّهُ خَاسِئًا".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ اور محمد بن جعفر نے شعبہ کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے محمد بن زیاد سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گذشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا۔ یا اسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی، وہ میری نماز میں خلل ڈالنا چاہتا تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے سوچا کہ مسجد کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آ گئی (جو سورۃ ص میں ہے) اے میرے رب! مجھے ایسا ملک عطا کرنا جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو ۔ راوی حدیث روح نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شیطان کو ذلیل کر کے دھتکار دیا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:461  
461. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: گزشتہ رات اچانک ایک سرکش جن مجھ سے ٹکرا گیا، یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ ارشاد فرمایا، تاکہ میری نماز میں خلل انداز ہو، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ میں نے چاہا کہ اسے مسجد میں کسی ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب بھی اسے دیکھ سکو، پھر مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان ؑ کی وہ دعا یاد آ گئی جس میں انھوں نے عرض کیا تھا:اے میرے رب! مجھے معاف کر اور مجھے ایسی سلطنت عطا فر جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہ ہو۔ (راوی حدیث) روح کہتے ہیں: پھر (یہ دعا یاد آنے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اس جن کو رسوا کر کے واپس کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:461]
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ سرکش جن میرے سامنے آیا اور مجھ پر حملہ آور ہوا۔
(صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث: 1210)
صحیح مسلم میں ہے کہ اس نے آگ کا شعلہ میرے چہرے پر ڈالنے کی کوشش کی۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 211 (542)
مسند احمد میں ہے کہ میں نے سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا اور اتنی زور سے اس کا گلادبایا کہ اس کا لعاب دہن میرے ہاتھوں پر گرا جس کی تراوٹ مجھے محسوس ہوئی۔
(مسند أحمد: 413/1)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہےکہ کسی مقروض کو عبرت کے لیے یا کسی کافر کومصلحت کے سبب مسجد کے ستون سے باندھنا جائز ہے اور اس سے مسجد کے تقدس کی پامالی نہیں ہوتی، کیونکہ عہد رسالت میں اس طرح کے سب کام مسجد نبوی ہی میں انجام پاتے تھے۔
مقروض کومسجد میں قید کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ مسلمان نماز کے اوقات میں جب اسے دیکھیں گے تو ممکن ہے کہ کسی کو اس پر رحم آجائے اور قرض کی ادائیگی میں اس کا ہاتھ بٹائے اور وہ خود بھی اس ندامت کے پیش نظر اپنی خفت مٹانے کے لیے جلد از جلد قرض اداکرنے کی کوشش کرے گا۔
اسی طرح کافر کو مسجد میں قید کرنے کی مصلحت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے معاملات کو بچشم خود دیکھے گا۔
ان کی عبادت اور دیگر خوبیوں سے واقف ہوگا، اسی طرح اسے اسلام کی صداقت قبول کرنے اور ایمان لانے میں مدد ملے گی۔
مختصر یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے ثابت کیاہے کہ اگرشرعی مصلحت کاتقاضا ہوتومسجد میں مقروض اور غیرمسلم کو قید کیا جاسکتا ہے۔
لیکن روایت میں اسیر کو مسجد میں قید کرنے کے جواز پر تو استدلال ہوسکتا ہے۔
البتہ مقروض کا اس میں ذکر نہیں ہے۔
اس کے متعلق علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ مقروض کو اسیر پر قیاس کیاجاسکتا ہے، کیونکہ مقروض بھی قرض خواہ کے حق میں اسیر ہی ہوتا ہے، اس لیے اسے بھی روایت سے ثابت سمجھناچاہیے۔
(عمدۃالقاري: 510/3)
نوٹ:
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم کتاب بدء الخلق (حدیث: 3284)
کتاب أحادیث الأنبیاء (حدیث: 3423)
اور کتاب التفسیر(حدیث: 4808)
میں بیان کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 461