مسند عبدالله بن مبارك
متفرق

حدیث نمبر: 32
حدیث نمبر: 32
أنا مَعْمَرٌ، أنا الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَلَمْ أُحَدِّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعَمَالَةَ لَمْ تَقْبَلْهَا؟ فَقَالَ: أَجَلْ، قَالَ: مَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنَا غَنِيٌّ، لِي أَفْرَاسٌ، وَلِي أَعْبُدٌ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، قَالَ عُمَرُ: لا تَفْعَلْ، فَإِنِّي قَدْ كُنْتُ أَفْعَلُ مَا تَفْعَلُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْطَانِي الْعَطَاءَ، قُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ: " خُذْهُ فَإِمَّا تَمَوَّلُهُ وَإِمَّا تَصَدَّقُ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ لَهُ غَيْرُ مُشْرِفٍ، وَلا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلا فَلا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
سیدنا عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا مجھے بیان نہیں کیا گیا کہ تو (بہ طور گورنر)لوگوں کے کاموں میں سے کئی کام سرانجام دیتا ہے، پھر جب تجھے اجرت دی جاتی ہے تو اسے قبول نہیں کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں فرمایا کہ اس سے تیرا کیا ارادہ ہے؟ کہا: میں مال دار ہوں، میرے پاس گھوڑے اور کئی غلام ہیں اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسے نہ کر، بے شک میں بھی ایسے کرتا تھا، جس طرح تو کر رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے اجرت دی تو میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اسے دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پکڑ، یا تو اسے اپنا مال بنا لے، یا صدقہ کر دے اور تیر ے پاس اس مال میں سے جو بھی آئے اور تو اس کا طمع و لالچ رکھنے والا نہ ہو، نہ ہی مانگنے والا ہو تو اسے لے لو اور جو ایسا نہ ہو تو اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت لگانا۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1473، 7163، 7164، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1045، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1843، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2364، 2365، 2366، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3405، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2603، 2604، 2605، 2606، 2607، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2396، 2397، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1647، 2944، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1687، 1688، 1689، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7982، 12165، وأحمد فى «مسنده» برقم: 101، 138، والحميدي فى «مسنده» برقم: 21، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1492
صحیح بخاري: 3/263، 264، صحیح مسلم: 7/304 (110، 111)، مسند احمد (الفتح الرباني): 15/7، سنن الکبریٰ بیهقي: 7/15، 4/198،»