صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور وہ جہنم کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے؟“۔
حدیث نمبر: 4850
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَحَاجَّتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ، وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: مَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِي، أَرْحَمُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَقَالَ لِلنَّارِ: إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي، أُعَذِّبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا، فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّى يَضَعَ رِجْلَهُ، فَتَقُولُ: قَطْ قَطْ، فَهُنَالِكَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَى بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ، وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا، وَأَمَّا الْجَنَّةُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں حمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ نے بحث کی، دوزخ نے کہا میں متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا مجھے کیا ہوا کہ میرے اندر صرف کمزور اور کم رتبہ والے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں جس پر چاہوں رحم کروں اور دوزخ سے کہا کہ تو عذاب ہے تیرے ذریعہ میں اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں عذاب دوں۔ جنت اور دوزخ دونوں بھریں گی۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس نہیں رکھ دے گا۔ اس وقت وہ بولے گی کہ بس بس بس! اور اس وقت بھر جائے گی اور اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے پر چڑھ جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور جنت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرے گا «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہئیے سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے چھپنے سے پہلے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4850  
4850. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے باہمی تکرار کی۔ دوزخ نے کہا: میں تو متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا: میرے اندر تو صرف کمزور اور ناتواں اور کم مرتبے والے لوگ داخل ہوں گے؟ اللہ تعالٰی نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔ اور دوزخ سے کہا کہ تو میرا عذاب ہے، میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا سزا دوں گا۔ بہرحال ان دونوں کو بھرنا ضرور ہے۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر نہیں رکھے گا۔ جب وہ قدم رکھے گا تو اس وقت دوزخ بولے گی کہ بس، بس اور بس۔ پھر اس وقت یہ بھر جائے گی اور اس کا ایک حصہ دوسرے حصے سے لپٹ جائے گا۔ اللہ تعالٰی اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ لیکن جنت! تو بلاشبہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4850]
حدیث حاشیہ:

اس سوال وجواب میں دوزخ نے متکبرین کا انداز اختیار کیا جبکہ جنت عاجزی اور انکسار کا اظہار کرے گی۔
اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ان دونوں کو بھرنا ضرورہے۔
اہل جنت جب جنت میں پہنچ جائیں گے تو جنت میں ابھی بہت سی جگہ خالی ہوگی، اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے وہاں بسا دے گا لیکن دوزخ کا بھرنے کے لیے اپنا قدم اس پر رکھ دے گا جس کی وجہ سے وہ بس، بس کہنے لگے گی۔

اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا کہ جہنم کو بھرنے کے لیے وہاں کسی مخلوق کو پیدا کرکے اس میں جھونک دے لیکن بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھرنے کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7449)
اس مقام پر علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت خوبصورت بات کہی ہے فرماتے ہیں:
جنت میں فالتو جگہ بھرنے کے لیے تواللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرکے وہاں انھیں بسا دے گا، لیکن جہنم میں بھی فالتو جگہ ہوگی۔
صحیح بخاری میں ایک جگہ پر ہے کہ اسے بھرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا جبکہ صحیح بخاری کی دیگر روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم رکھ دے گا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے راوی کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے جان بوجھ کر یہ انداز اختیار کیا ہے کہ ایک مقام پر اس کی غلطی کی نشاندہی کی ہے جبکہ دوسرے مقامات پر صحیح بات ذکر کی ہے۔
(منھاج السنة: 25/3)

ہمارے رجحان کے مطابق جہنم کو بھرنے کے لیے کسی مخلوق کو پیدا نہیں کرے گا، بلکہ اپنا قدم رکھ دے گا پھر وہ جہنم بس، بس کہہ اٹھے گی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4850