صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ: {إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”(اے رسول!) جب ایمان والی عورتیں آپ کے پاس آئیں تاکہ وہ آپ سے بیعت کریں“۔
حدیث نمبر: 4892
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ عَلَيْنَا: أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا سورة الممتحنة آية 12، وَنَهَانَا عَنِ النِّيَاحَةِ، فَقَبَضَتِ امْرَأَةٌ يَدَهَا، فَقَالَتْ: أَسْعَدَتْنِي فُلَانَةُ أُرِيدُ أَنْ أَجْزِيَهَا، فَمَا قَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَانْطَلَقَتْ، وَرَجَعَتْ، فَبَايَعَهَا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت کی «أن لا يشركن بالله شيئا‏» کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور ہمیں نوحہ (یعنی میت پر زور زور سے رونا پیٹنا) کرنے سے منع فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ممانعت پر ایک عورت (خود ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ فلاں عورت نے نوحہ میں میری مدد کی تھی، میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا چنانچہ وہ گئیں اور پھر دوبارہ آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 475  
´مرنے والوں پر نوحہ، بین، چیخنا، واویلا، منہ نوچنا وغیرہ حرام افعال ہیں`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے موقع پر یہ عہد لیا تھا کہ ہم میت پر نوحہ نہیں کریں گی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 475]
فوائد و مسائل:
اس سے صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ مرنے والوں پر نوحہ اور بین کرنا، چیخنا لانا، واویلا کرنا، گریباں چاک کرنا اور منہ نوچنا وغیرہ حرام افعال ہیں۔
➋ غم سے آنکھوں کا اشک بار ہونا اور آنسووں کا بےاختیار بہہ نکلنا حرام نہیں، گویا آنکھوں کا فعل حرام نہیں بلکہ زبان کا فعل حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 475   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4892  
4892. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔۔ اور ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔ (آپ کی اس ممانعت پر) ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ فلاں عورت نے (نوحہ کرنے میں) میری مدد کی تھی، اب میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں۔ نبی ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس لوٹ آئی تو آپ ﷺ نے اسے بیعت کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4892]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو اجازت دی۔
یہ ایک خاص حکم تھا جو حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کو دیا گیا ورنہ نوحہ عموماً حرام ہے اس کی حرمت میں احادیث صحیحہ وارد ہیں اور بعض مالکیہ کا قول ہے کہ نوحہ حرام بلکہ شاذ اور مردود ہے۔
قسطلانی نے کہا پہلے نوحہ مباح تھا پھر مکروہ تنزیہی ہوا پھر حرام ہوا اور ممکن ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے بیعت کرتے وقت مکروہ تنزیہی ہوا، اس لئے آپ نے اجازت دی ہو، اس کے بعد حرام ہو گیا ہو۔
حافظ نے کہا نوحہ کرنا مطلقاً حرام ہے اور یہی تمام علماء کا مذہب ہے تو ﴿وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ﴾ سے یہ مراد ہوگا کہ نوحہ نہ کریں یا غیر مرد کریں یا شوہروں کی نا فرمانی نہ کریں اگر یہ معنی ہو کہ اچھی بات میں تیری نا فرمانی نہ کریں تب تو عورتوں مردوں سب کے لئے یہ حکم عام ہوگا جیسے آگے کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے لیلۃ العقبہ میں انصار سے انہیں شرطوں پر بیعت لی تھی اور انصار کے ہر مرد و عورت نے بخوشی ان شرطوں پر بیعت کر کے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ہم شرطوں سے پھرنے والے اور بیعت سے منہ موڑنے والے نہیں ہیں، اللہ پاک انصار کو ان کی وفا داری کی بہترین جزائیں بخشے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4892   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4892  
4892. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تو آپ نے ہمارے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی۔۔ اور ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔ (آپ کی اس ممانعت پر) ایک عورت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ فلاں عورت نے (نوحہ کرنے میں) میری مدد کی تھی، اب میں چاہتی ہوں کہ اس کا بدلہ چکا آؤں۔ نبی ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس لوٹ آئی تو آپ ﷺ نے اسے بیعت کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4892]
حدیث حاشیہ:

عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان کا ہاتھ پکڑنا یا ان سے مصافحہ کرنا جائز نہیں، البتہ مردوں سے بیعت لیتے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا درست ہے۔
پہلے ایک حدیث میں اس امر کی وضاحت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کرتے وقت کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا۔
آپ ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4891)

ویسے تو عورت کا میت پر رونا دھونا اور اس کے محاسن بیان کرنا نوحہ کہلاتا ہے لیکن اسلام میں دو مزید چیزیں بھی نوحے میں شامل ہیں۔
ایک یہ کہ کسی خاص گھر یا مسجد میں تعزیت کے لیے جمع ہونا۔
دوسرا یہ کہ میت کے گھر والوں کی طرف سے تعزیت کے لیے آنے والوں کا کھانا تیار کرنا چنانچہ حضرت جریر بن عبداللہ الجبلی فرماتے ہیں اہل میت کے گھر جمع ہونے اور دفن کے بعد ان کے ہاں کھانا تیار کرنے کو ہم نوحہ شمار کرتے تھے۔
(مسند أحمد: 204/2)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ خوانی کو دور جاہلیت کی یاد قراردیتے ہوئے فرمایا ہے۔
نوحہ کرنے والی اگر توبہ کرنے سے پہلے مرجائے تو قیامت کے دن اسے گندھک کی قمیص اور خارش کی اوڑھنی پہنائی جائے گی۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2160۔
(934)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4892