صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَسِيرٌ: شَدِيدٌ، قَسْوَرَةٌ: رِكْزُ النَّاسِ وَأَصْوَاتُهُمْ وَكُلُّ شَدِيدٍ قَسْوَرَةٌ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: الْقَسْوَرَةُ قَسْوَرٌ الْأَسَدُ الرِّكْزُ الصَّوْتُ، مُسْتَنْفِرَةٌ: نَافِرَةٌ مَذْعُورَةٌ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «عسير‏» کا معنی سخت۔ «قسورة‏» کا معنی لوگوں کا شور و غل۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا «قسورة‏» شیر کو کہتے ہیں اور ہر سخت اور زور دار چیز کو «قسورة‏» کہتے ہیں۔ «مستنفرة‏» بھڑکنے والی۔
حدیث نمبر: 4922
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ، فَقَالَ جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَنُودِيتُ، فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} سورة المدثر آية 1-3".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی۔ ابوسلمہ نے اس پر کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی وہی میں نے بھی ان سے کہی تھی لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں غار حرا میں ایک مدت کے لیے خلوت نشیں تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی، میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا لیکن کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پھر بائیں طرف دیکھا ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہیں دی، سامنے دیکھا ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا اور ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ اب میں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک چیز دکھائی دی۔ پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو۔ فرمایا کہ پھر انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور ٹھنڈا پانی مجھ پر بہایا۔ فرمایا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر‏» یعنی اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی`
«. . . عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . . .»
. . . قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4922]

تخريج الحديث:
[101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52]
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی`
«. . . عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . . .»
. . . قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4922]

تخريج الحديث:
[101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52]
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4922  
4922. حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ، میں نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ ﴿ٱقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ سب سے پہلے نازل ہوئی۔ حضرت ابوسلمہ نے فرمایا: میں نے حضرت جابر ؓ سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی ہے وہی میں نے ان سے کہی تھی، لیکن حضرت جابر ؓ نے فرمایا: میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا: میں غار حراء میں ایک مدت کے لیے خلوت نشین تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی۔ میں نے اس آواز پر اپنی دائیں طرف دیکھا تو کوئی چیز دکھائی نہ دی، پھر بائیں طرف دیکھا تو بھی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ سامنے دیکھا، ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا تو ادھر بھی کوئی چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4922]
حدیث حاشیہ:
پہلے سورۃ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ﴾ ہی نازل ہوئی تھی بعد میں یہ سلسلہ ایک مدت تک بند رہا۔
پھر پہلی آیت ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ﴾ ہی نازل ہوئی (کما في کتب التفسیر)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4922   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4922  
4922. حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ، میں نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ ﴿ٱقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ سب سے پہلے نازل ہوئی۔ حضرت ابوسلمہ نے فرمایا: میں نے حضرت جابر ؓ سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی ہے وہی میں نے ان سے کہی تھی، لیکن حضرت جابر ؓ نے فرمایا: میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی تھی۔ آپ نے فرمایا تھا: میں غار حراء میں ایک مدت کے لیے خلوت نشین تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی۔ میں نے اس آواز پر اپنی دائیں طرف دیکھا تو کوئی چیز دکھائی نہ دی، پھر بائیں طرف دیکھا تو بھی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ سامنے دیکھا، ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا تو ادھر بھی کوئی چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4922]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں اس کے متعلق دو مشہور قول حسب ذیل ہیں۔
۔
جمہور اہل علم کا قول ہے کہ سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔
۔
سب سے پہلے سورہ مدثر کا نزول ہوا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے۔
ان دونوں اقوال میں تطبیق کی حسب ذیل صورتیں بیان کی گئی ہیں۔
۔
علی الاطلاق پہلے سورہ علق کی آیات نازل ہوئیں لیکن پوری کامل سورت پہلے مدثر نازل ہوئی۔
۔
زمانہ فترت سے پہلےسورہ علق کی آیات نازل ہوئیں اور زمانہ فترت کے بعد سب سے پہلے سورہ مدثر نازل ہوئی۔
۔
سورہ علق کی آیات کے نزول کے لیے کوئی سبب پیش نہیں آیا جبکہ سبب کے پیش آنے کے بعد سب سے پہلے سورہ مدثر نازل ہوئی۔
ویسے ترجیح پہلے موقف کو ہے کیونکہ حدیث جابر میں ہے کہ جب میں نے سر اٹھایا تو وہی فرشتہ دیکھا جو مجھے حراء میں نظر آیا تھا جو زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے فرشتہ وحی کو دیکھ چکے تھے اور اس کی آپ سے ملاقات ہو چکی تھی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4922