صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} :
باب: آیت «وربك فكبر» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4924
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ أَوَّلُ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، فَقُلْتُ: أُنْبِئْتُ أَنَّهُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ: لَا أُخْبِرُكَ إِلَّا بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَاوَرْتُ فِي حِرَاءٍ فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَاسْتَبْطَنْتُ الْوَادِيَ، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، وَأُنْزِلَ عَلَيَّ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} سورة المدثر آية 1-3.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا ہم سے حرب نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ فرمایا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ «يا أيها المدثر‏» اے کپڑے میں لپٹنے والے! میں نے ان سے یہی کہا تھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ «اقرأ باسم ربك‏» سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں وہی خبر دے رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے غار حرا میں تنہائی اختیار کی جب میں وہ مدت پوری کر چکا اور نیچے اتر کر وادی کے بیچ میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا اور مجھے دکھائی دیا کہ فرشتہ آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ پھر میں خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور میرے اوپر ٹھنڈا پانی ڈالو اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر‏» اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی کیجئے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی`
«. . . عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . . .»
. . . قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4922]

تخريج الحديث:
[101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52]
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4924  
4924. حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا: قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے عرض کی: مجھے بتایا گیا ہے کہ ﴿ٱقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ ، سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ مجھے ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ کے پہلے نازل ہونے کی خبر ملی ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اس کی خبر دے رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے خود بیان فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے غار حرا میں خلوت گزینی اختیار کی، جب وہ مدت پوری کر چکا تو نیچے اترا اور وادی کے درمیان میں پہنچا تو مجھے آواز دی گئی۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے دکھائی دیا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4924]
حدیث حاشیہ:
سورۃ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ﴾ کے بعد یہ پہلی آیات ہیں جو آپ پر نازل ہوئیں ان میں آپ کو تبلیغ اسلام کا حکم دیا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4924   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4924  
4924. حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا: قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے عرض کی: مجھے بتایا گیا ہے کہ ﴿ٱقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ ، سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ مجھے ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ کے پہلے نازل ہونے کی خبر ملی ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اس کی خبر دے رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے خود بیان فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے غار حرا میں خلوت گزینی اختیار کی، جب وہ مدت پوری کر چکا تو نیچے اترا اور وادی کے درمیان میں پہنچا تو مجھے آواز دی گئی۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے دکھائی دیا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4924]
حدیث حاشیہ:

دنیا میں بڑے بڑے حکمران اور ان کی بڑی بڑی حکومتیں ہیں۔
لیکن اللہ کی کبریائی کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے دن سے یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کے کام میں بڑی بڑی طاقتیں حائل ہو سکتی ہیں۔
ان کی ذرا پروانہ کریں بلکہ صاف صاف کہہ دیں کہ میرا رب ان سب سے بڑا ہے جو میری دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔

بہر حال اللہ کی کبریائی کانقش جس آدمی کے دل پر جما ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ہی ساری دنیا سے لڑ جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ تکبیر یعنی اللہ اکبر کی بڑی اہمیت ہے نیز اذان میں چھ بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے اور ہر نماز کا افتتاح اسی کلمہ سے ہوتا ہے پھر نماز کی ہر رکعت میں متعدد مرتبہ اللہ اکبر کہا جاتا ہے یہ اس لیے ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے ہر وقت اللہ کی کبریائی کا تصور موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4924