صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
1. بَابُ كَيْفَ نُزُولُ الْوَحْيِ وَأَوَّلُ مَا نَزَلَ:
باب: وحی کیونکر اتری اور سب سے پہلے کون سی آیت نازل ہوئی تھی؟
حدیث نمبر: 4981
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے سعد مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے والد کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4981  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم معجزے قرآن کریم کا ذکر`
«. . . يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 4981]

فہم الحديث:
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم معجزے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا جس کا اعجاز تاقیامت باقی رہے گا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ یہی وہ واحد کتاب ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے، سنی جاتی ہے، حفظ کی جاتی ہے، ہر رمضان میں ہزاروں لاکھوں مساجد میں دوران نماز تلاوت کی جاتی ہے اور آج اگر سب سے زیادہ کوئی مذہب قبول کیا جا رہا ہے تو وہ اسی قرآنی تعلیمات پر مبنی مذہب اسلام ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 93   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7274  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ «جوامع الكلم» کے ساتھ بھیجا گیا ہوں۔`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7274]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7274 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالیشان پر قائم فرمایا کہ «بعثت بجوامع الكلم» جبکہ تحت الباب صرف وحی کا ذکر ہے، «جوامع الكلم» کا کوئی ذکر نہیں ہے کیوں کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی گئی اسی طرح سے سابقہ انبیاء علیہم السلام پر بھی اسی طرح سے وحی نازل کی گئی تھی، تو پھر ترجمۃ الباب اور حدیث میں کسی طرح مناسبت قائم ہو گی؟ اس مسئلے اور مناسبت کو سمجھنے کے لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کو ہم نقل کیے دیتے ہیں۔

چنانچہ آپ رقمطراز ہیں:
«ومعنى الحصر فى قوله إنما كان الذى أوتيته أن القرآن أعظم المعجزات وأفيدها وأدومها لاشتماله على الدعوة والحجة ودوام الانتفاع به إلى آخر الدهر، فلما كان لا شيئي يقاربه فضلاً عن أن يساويه كان ما غداه بالنسبة إليه كأن لم يقع.» [فتح الباري لابن حجر: 212/14]
«إنما كان الذى أوتيته» میں معنائے حصر یہ ہے کہ قرآن اعظم المعجزات اور امید اور دوام ہے (یعنی ہمیشہ جاری رہنے والا) کیوں کہ دعوت و حجت پر مشتمل ہے اور اس کا انتقاع آخری زمانے تک جاری و ساری ہے جب کوئی شئی اس کے مقارب نہیں چہ جائے کہ اس کے مساوی ہو (یعنی اس کا کوئی مقابلہ نہیں) تو اس کے سوا باقی سب کی نسبت ایسی ہے کہ گویا واقع ہی نہیں ہوئے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی عطا کیا گیا ہے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو جوامع الکلم کے ساتھ ساتھ تاقیامت جاری و ساری رہنے والا ہے، لہٰذا باب سے مناسبت اس جہت کے ساتھ قائم ہے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة تؤخذ من قوله وإنما كان الذى اوتيت وحيا إلى آخرة، فإنه صلى الله عليه وسلم أراد بقوله: وحيًا أوحاه الله إليّ القرآن ولا شك أن فيه جوامع الكلم.» [عمدة القاري للعيني: 40/25]
ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت ان الفاظوں سے اخذ کی جائے گی: «وإنما كان الذى اوتيت و حيا (الحديث)» آخر تک، یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد «و حياً أوحاه الله إلى» سے قرآن مجید ہے جس کا جوامع الکلم ہونے میں کوئی شک نہیں۔

جہاں تک جوامع الکلم کا تعلق ہے تو تحقیق یہ ہے کہ جوامع الکلم سے مراد صرف قرآن عظیم نہیں ہے بلکہ اس کا احاطہ قرآن و حدیث دونوں پر ہوتا ہے، اور یہی بات محقق ہے، حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اس نکتہ پر تفصیلی بحث فرمائی ہے،

چنانچہ آپ رقمطراز ہیں:
«قيل يؤخذ من إيراد البخاري هذا الحديث عقب الذى قبله أن الراجح عنده أن المراد بجوامع الكلم القرآن و ليس ذالك بلازم، فإن دخول القرآن فى قوله بعثت بجوامع الكلم لا شك فيه و إنما النزاع هل يدخل غيره من كلامه من غير القرآن؟ و قد ذكروا من أمثلة جوامع الكلم فى القرآن قوله تعالى: ﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ [البقرة: 179] إلى غير ذالك و من أمثلة جوامع الكلم من الأحاديث النبوية حديث عائشة كل عمل ليس عليه أمرنا فهو رد و حديث كل شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل [فتح الباري لابن حجر: 214/14]
بعض نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی سابقہ حدیث کے بعد اس حدیث کے ایراد سے یہ اخذ کیا جائے گا کہ ان کے نزدیک راجح یہ ہے کہ جوامع الکلم سے مراد قرآن ہے لیکن یہ لازم نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول: «بعثت بجوامع الكلم» سے مراد کہ اس میں قرآن داخل ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، نزاع دراصل یہاں ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی کوئی شیئی جوامع الکلم میں داخل ہے کہ نہیں؟ قرآنی جوامع الکلم کی مثالوں میں آیات ذکر کی گئی ہیں: بقرۃ: 179، النور: 52 وغیرہ، احادیث کی مثالوں کو واضح کرنے کے لیے (کہ وہ بھی جوامع الکلم ہی ہے) حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «كل عمل ليس عليه أمرنا فهو رد» اور «كل شرط ليس فى كتاب الله . . . . .»، اور حدیث مقدام «ما ملأ ابن آدم وعاء شرا من بطنه» (قابل ذکر ہیں)۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ جوامع الکلم سے مراد قرآن و حدیث دونوں ہیں، اگر تحقیقی نگاہ سے احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو کتب احادیث میں احادیث کے جوامع الکلم کی مثالیں ان گنت اور بےشمار پائی جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں کے ذریعے بھی قیامت تک کے مسائل کو حل فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مختصر ہوا کرتی ہے مگر اپنے مضمون کے اعتبار سے اتنی جامع ہوتی ہے جن کی مثال قرآن مجید کے علاوہ دنیا بھر کی مذہبی کتب میں ملنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت باریکی سے یہ واضح کرنا چاہا ہے کہ جوامع الکلم اور وحی کا اطلاق قرآن و حدیث دونوں پر ہوتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب دو حدیثیں ذکر فرمائی ہیں، پہلی حدیث میں جو الفاظ ہیں کہ یہ حدیث (مجھے جوامع الکلم عطا کیا گیا ہے اور میری مدد رعب کی ذریعے کی گئی اور میں سویا ہوا تھا . . . . .) یہ حدیث خود اپنے نفس کے اعتبار سے جوامع الکلم پیش کر رہی ہے، یعنی یہ حدیث باب کے ساتھ مطابقت خود اپنے ہی الفاظوں سے ثابت کر رہی ہے جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ «جوامع الكلم» میں احادیث داخل ہیں، دوسری حدیث جس کا ذکر ہم نے تحت الباب میں کیا ہے اس میں وحی کا ذکر ہے جس سے مراد قرآن مجید بھی ہے اور دیگر وحی کی اقسام بھی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 295   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4981  
4981. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر کسی کو ایسے ایسے معجزات عطا کیے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ ایمان لاتے رہے۔ البتہ مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ (قرآن کی) وحی ہے جو اللہ تعالٰی نے مجھ پر نازل کی ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیرو کار دوسرے انبیاء کے پیروکاروں سے زیادہ ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4981]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں جس قسم کے معجزہ کی ضرورت تھی ایسا معجزہ پیغمبر کو دیا۔
حضرت موسیٰ کے زمانے میں علم سحر کا بہت رواج تھا ان کو ایسا معجزہ دیا کہ سارے جادوگر ہارمان گئے دم بخود رہ گئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا رواج تھا۔
ان کو ایسے معجزے دئیے کہ کسی طبیب کے باپ سے بھی ایسے علاج ممکن نہیں۔
ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فصاحت، بلاغت، شعر و شاعری کے دعاوی کا بڑا چرچہ تھا تو آپ کو قرآن مجید کا ایسا عظیم معجزہ عطا فرمایا کہ سارے زمانے کے فصیح و بلیغ لوگ اس کا لوہا مان گئے اور ایک چھوٹی سی سورت بھی قرآن کی طرح نہ بنا سکے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہی کہ دوسرے پیغمبروں کے معجزے تو جن لوگوں نے دیکھے تھے انہوں نے ہی دیکھے وہ ایمان لائے بعد والوں پر ان کا اثر نہیں رہا۔
گو ماں باپ اور اگلے بزرگوں کی تقلید سے کچھ لوگ ان کے طریق پر قائم رہیں مگر اپنے اپنے زمانہ میں وہ معجزوں کو ایک افسانہ سے زیادہ خیال نہیں کرتے اور میرا معجزہ قرآن ہمیشہ باقی ہے وہ ہر زمانہ اور ہر وقت میں تازہ ہے اور جتنا اس میں غور کر تے جاؤ لطف زیادہ ہوتا جاتا ہے۔
اس کے نکات اور فوائد لا انتہا ہیں جو قیامت تک لوگ نکالتے رہیں گے۔
اس لحاظ سے میرے پیر ولوگ ہمیشہ قائم رہیں گے اور میرا معجزہ قرآن بھی ہمیشہ موجود رہے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4981   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4981  
4981. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر کسی کو ایسے ایسے معجزات عطا کیے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر لوگ ایمان لاتے رہے۔ البتہ مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ (قرآن کی) وحی ہے جو اللہ تعالٰی نے مجھ پر نازل کی ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیرو کار دوسرے انبیاء کے پیروکاروں سے زیادہ ہوں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4981]
حدیث حاشیہ:

اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے دور کے مطابق معجزہ عطا کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں سحر اور جادو کا بہت چرچا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا معجزہ عطا کیا کہ اس زمانے کے جادو گرشکست کھاگئے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بہت رواج تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسے معجزات عطا فرمائے کہ اس وقت کے بڑے بڑے طبیب دم بخود ہوگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قوت گویائی اورفصاحت و بلاغت کی بہت شرم تھی کہ عرب لوگ دوسروں کو عجمی، یعنی گونگا کہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم عطا کیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے بڑے بڑے ادباء اورفصحاء کو خاموش کر دیا اور انھوں نے اس کا لوہا مان لیا۔
وہ قرآن مجید کی چھوٹی سی سورت کی مثال پیش کرنے سے عاجز آ گئے۔

حدیث کامطلب یہ ہے کہ دوسرے انبیائے کرام علیہ السلام کو ایسے معجزات ملے جنھیں دیکھ کر لوگ ایمان لاتے اور بعد والوں پر ان کا کوئی اثر نہ رہتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن ہر زمانے اور ہر وقت کے لیے تازہ ہے، اس بنا پر قیامت تک لوگ اس میں غور و فکر کرتے رہیں گے اور ایمان سے بہرہ ورہوتے رہیں گے۔
بہرحال قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے کہ بار بار چیلنج کرنے کے باوجود اس کامقابلہ نہیں کیا جاسکا۔
کوئی بھی اس کی مثل یا اس جیسی دس سورتیں یا اس جیسی ایک سورت یا اس جیسی ایک ہی آیت پیش نہیں کرسکا۔

قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
عمدہ کلام اور فصاحت و بلاغت کا عظیم شاہکار جس کی نظیر لانے سے تمام مخلوق عاجز ہے۔
۔
ایسے بدیع نظم اورعجیب اسلوب پر مشتمل ہے جوعربوں کے اسالیب اور نظم سے مختلف ہے۔
۔
اس کاقانون ایسا ہمہ گیر اور مکمل ہے جو ہر انسان کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
۔
ماضی اور مستقبل کی ایسی خبریں اور پیش گوئیاں دیتا ہے جو وحی کے بغیر معلوم ہی نہیں ہوسکتیں۔
۔
وعدے اور وعید کے متعلق اس نے جوخبر دی ہے وہ ضرور پوری ہوکر رہے گی۔
۔
قرآن ہر قسم کی کمی و بیشی اور تغیر و تبدیل سے محفوظ ہے۔
۔
اس کا یاد کرنا اور اس کا سمجھنا انتہائی آسان اور ہر ایک کے لیے ممکن ہے۔
۔
قرآن اپنوں اور بے گانوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے اور ان کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔
۔
ایسا کلام ہے جس سے پڑھنے والا کبھی سیر نہیں ہوتا اور نہ سننے والا اس سے اکتاتا ہے۔
۔
ایسا دستور العمل ہے کہ بکریوں کے چرواہوں کو اس نے امت کا قائد بنا دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4981