مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کا بیان

حدیث جبریل۔۔۔ ایمان کی بنیادی خصوصیات
حدیث نمبر: 2
‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ:" الْإِسْلَامُ: أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا". قَالَ: صَدَقْتَ. فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ. قَالَ: «أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ» . قَالَ صَدَقْتَ. قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ. قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ. قَالَ: «مَا المسؤول عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ» . قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا. قَالَ: «أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ» . قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ» ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «فَإِنَّهُ جِبْرِيل أَتَاكُم يعلمكم دينكُمْ» . رَوَاهُ مُسلم
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اس اثنا میں ایک آدمی ہمارے پاس آیا، جس کے کپڑے بہت ہی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے، اس پر سفر کے آثار نظر آتے تھے نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا، حتیٰ کہ وہ دو زانو ہو کر نبیصلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے، اور کہا: محمدصلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم! اسلام کے متعلق مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، ہمیں اس سے تعجب ہوا کہ وہ آپ سے پوچھتا ہے اور آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے، اس نے کہا: ایمان کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اور یوم آخرت پر ایمان لاؤ اور تم تقدیر کے اچھا اور برا ہونے پر ایمان لاؤ۔ اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، پھر اس نے کہا، احسان کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکے تو وہ یقیناً تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس نے کہا، قیامت کے بارے میں مجھے بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسٔول اس کے متعلق سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ اس نے کہا، اس کی نشانیوں کے بارے میں مجھے بتا دیں۔ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے گی اور یہ کہ تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، تنگ دست بکریوں کے چرواہوں کو بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر اور ان پر فخر کرتے ہوئے دیکھو گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر وہ شخص چلا گیا، میں کچھ دیر ٹھہرا۔ پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا: عمر! کیا تم جانتے ہو سائل کون تھا؟ میں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے، وہ تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے تمہارے پاس تشریف لائے تھے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (الإيمان ج1 ص 28. 29ح 8 واللفظ له إلا عنده ’’بينما‘‘ بدل ’’بينا‘‘ و جاء في اکمال اکمال المعلم لمحمد بن خليفة الأبي ج1ص 102 ’’بينا‘‘)»

قال الشيخ الألباني: صَحِيح
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 93  
´فرشتے کا انسانی شکل میں آنا `
«. . . فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ . . .»
۔۔۔ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے تم کو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔۔۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

فوائد:
نماز کے بعد ذکر کے سلسلے میں حدیث زيد بن ثابت [سنن نسائي: 1351]، اذان کے سلسلے میں حدیث عبداللہ بن زید بن عبدربہ [سنن ابي داؤد: 499 و اسناده حسن] اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض سے فرشتے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم (بذریعہ وحی) اس کی تصدیق فرما دیتے تھے۔ واضح رہے کہ شریعت میں غیر نبی کے خواب قطعاً حجت نہیں ہیں، اِلاَّ یہ کہ دور نبوی میں جن خوابوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصدیق فرمائی ہو، علاوہ ازیں کسی خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا جبکہ بعض الناس کے مسالک و مذاہب کی بنیاد ہی خوابوں پر ہے جو صریحاً باطل ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 6   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 2  
´ایمان قول و عمل کا نام ہے`
«عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم فأسند رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخْذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ . . .»
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص آ موجود ہوا جس کے کپڑے بہت صاف و شفاف اور اس کے بال نہایت ہی سیاہ تھے اس پر کوئی سفر کی نشانی نہیں دیکھی، پائی جاتی تھی اور نہ ہم لوگوں میں سے کوئی انہیں پہچانتا ہی تھا، یہاں تک کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گیاکہ آپ کے گھٹنے سے اپنے گھٹنے ملا دیے اور اپنے دونوں ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں زانوئے مبارک پر رکھ کر یوں کہنا شروع کیا کہ اے محمد! آپ مجھے یہ خبر دیجئے کہ اسلام کیا ہے؟ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 2]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 93]

فقہ الحدیث:
➊ یہ ایک عظیم الشان حدیث ہے، محذوفہ حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان لوگوں سے برأت کا اعلان کیا جو تقدیر کے منکر تھے اور فرمایا: اگر ان (منکرین تقدیر) میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی (اللہ کی راہ) میں خرچ کر دے تو اللہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا کہ (بدعت کبرٰی کے) مبتدعین کے اعمال باطل ہوتے ہیں۔
➋ ایمان قول و عمل کا نام ہے، نماز رمضان کے روزے اور حج، چاروں اعمال اور ایمان اور ارکان ایمان میں سے ہیں۔
➌ قیامت آنے کی صحیح تاریخ اور وقت صرف اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے، اللہ کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے غیب کی جو خبریں بیان فرمائیں، وہ سب وحی الہٰی کے ذریعے سے بتائیں تھیں۔ صحابہ کرام بھی غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ جبرائیل علیہ السلام کو پہلے ہی پہچان لیتے۔
➍ فرشتے انسانی شکل میں تمثل کر کے دنیا میں آتے رہے ہیں، اگرچہ ان کی اصل شکل و صورت اس کے علاوہ ہے اور فرشتوں کے پر بھی ہوتے ہیں۔
➎ یہ حدیث بہت زیادہ فوائد پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب کے کبار علماء میں سے شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ نے اس حدیث مبارکہ کہ شرح میں (79 صفحات کی) ایک زبردست مفید کتاب «شرح حديث جبريل فى تعليم الدين» لکھی ہے جس میں انہوں نے بہت سے فوائد جمع کر لیے ہیں، جزاہ اللہ خیرا۔

تنبیہ:
یہ کتاب میرے اردو ترجمے اور تحقیق و فوائد کے ساتھ مطبوع ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس لائق ہے کہ اسے ام السنۃ (سنت کی ماں) کہا جائے، کیونکہ اس میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) سنت کے (بہت سے) جملوں کا علم ہے۔ [فتح الباری125/1]
➏ نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ ہر مکلف مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازیں، ہر سال رمضان کے روزے ہر سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ اور عمر بھر میں صرف ایک دفعہ حج فرض ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 2   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث63  
´ایمان کا بیان۔`
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 63]
اردو حاشہ:
(1)
یہ حدیث حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔
اس میں عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔

(2)
اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔
احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔

(3)
اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔
اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قالَتِ الأَعر‌ابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا﴾  (الحجرات: 14)
 بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں)
تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔)

(4)
اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہ، نابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہتے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري، حديث: 7437 اور صحيح مسلم، حديث: 182)

(5)
قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔

(6)
قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا:
بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔
تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب خروج النار)
اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا:
ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔
یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔

(7) (أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا)
لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے:

(ا)
ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرار دی جائے گی۔
حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

(ب)
ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔

(ج)
ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا:
ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ میں جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔
اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہیں ہوا۔
ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم میں پروان چڑھائیں جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔
موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔
واللہ أعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔

(8)
جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قارون کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا:
﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾ (القصص: 77)
 اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر)
احسان کر۔ (9)
محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔

(10)
عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔

(11)
تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔
اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھا ہے۔
تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا:
تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا:
قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔
اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔

(12)
جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی لے كر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

(13)
دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔

(14)
سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔

(15)
جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جَامِعُ التِّرْمَذِي، الأدبُ، بَابَ مَا جَاءَ فِي لبسِ الْبيَاضِ، حَدِيْث: 2810)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2610  
´جبرائیل علیہ السلام کا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایمان و اسلام کے اوصاف بیان کرنا۔`
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا: کاش ہماری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہو گئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2610]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
ایک ان کے داہنے ہو گیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ 2؎:
یعنی جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے،
پہلے سے ہی کوئی چیزلکھی ہوئی اورمتعین شدہ نہیں ہے۔
3؎:
یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پرپہنچا دی جائے گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2610   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4695  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4695]
فوائد ومسائل:
1: بالخصوص فتنوں کے دنوں میں ضروری ہے کہ انسان علمائے راسخین سے رابطے میں رہے ان سے استفادہ کرکے ہی وہ اپنے ایمان وعمل کو محفوظ رکھ سکتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ اس سلسلے کی اولین کڑی ہیں۔
2: الولا ء والبراء ایک اہم ترین مسئلہ ہے،ہر مومن کے لئے اس سے آگاہی اور اس پر عمل ضروری ہے،یعنی اہل ایمان سے محبت اور اہل کفراور ملحدین سے بغض اور اعراض۔
3: ایمانیات کی تمامتر جزئیات تسلیم اور قبول کیے بغیر کوئی نیکی درجہ قبول نہیں پاسکتی،ان میں سے ایک اہم مسئلہ تقدیر بھی ہے۔
4:لازمی ہے کہ علم شریعت قوت اور شباب (جوانی) کے دنوں میں حاصل کیا جائے۔
طالب علم کا لباس انتہائی صاف ستھراہو اور وہ اپنے مشائخ سے از حد تواضع کا معاملہ رکھے۔
5:ایمان اعضائے باطنی اور اعضائے ظاہری دونوں عمل یعنی تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان و اعمال صالحہ کا نام ہے جبکہ اسلام اعضائے ظاہری کے اعمال یعنی اقرارباللسان واعمال صالحہ کا نا م ہے۔
ایمان میں اسلام بھی شامل ہے مگر جہاں ان کی الگ الگ پہچان کرنا مقصود ہو وہاں اسلام کا اطلاق ظاہری اعمال پر اور ایمان کا اطلاق باطنی امور پر ہوتا ہے جن کو ظاہری اعمال خود بخود مستلزم ہوتے ہیں۔
6: صفت احسان یعنی بندے کایہ تصور ہوکہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے،ایمان اور اسلام کے کمال کی نشانی ہے۔
7: قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں 8: اولادوں کا نافرمان ہونا اور بلند سے بلند عمارتوں کی تعمیر میں مقابلہ بالخصوص قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔
9: فرامین رسول ؐ یعنی حدیث وسنت شرعی حجت ہیں۔
رسول اللہ ؐ کے علاوہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی صاحب عظمت ہو،شریعت میں اس کے قول وفعل کی کوئی حیثیت نہیں جب تک الصادق والمصدوقؐ کی توثیق نہ ہو۔
جس طرح کہ جبریل امین ؑنے دین کی سب سے تفصیلات رسول اللہ ؐ کی زبان سے اداکروائیں۔
براہ راست کچھ نہیں کہا۔
۔
۔
۔
اور اگر بالفرض وہ کہہ بھی دیتے تو امت کے لئے یہ حجت نہ ہوتا۔
10:صحابہ کرام رضی اللہ کو آنے والے کا پتہ نہ تھا اس کا مطلب ہے کہ اولیا اللہ غیب نہیں جانتے۔
11: لفظ دین شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی امور کو محیط ہے
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4695